جائر بولسنارو حکام اور 59 کاروباری شخصیات کے ایک بھاری وفد کوساتھ لیکر بھارت آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے 25 جنوری کو اکیلے میں اور وفد کی شکل میں بھارتی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
یومِ جمہوریہ کی تقریب کیلئے مہمانِ خصوصی کے بطور ان کے انتخاب کو لیکر تاہم بعض لوگوں نے بھوئیں چڑھائیں کیونکہ بولسنارو کو نہ صرف ان کی تشدد خیالات کیلئے جانا جاتا ہے بلکہ انہیں ہم جنس پرست وزن بیزار بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ سابق فوجی افسر بولسنارو لگاتار سات بار 'ہاوس آف ڈیپیوٹیزــ 'کے رکن رہنے کے باوجود بھی 2018 تک برازیلی سیاست میں نسبتاً بے وزن تھے لیکن مظبوط مدِ مقابل اور سابق صدر لولا کے نا اہل قرار پانے سے بولسنارو کی اقتدارِ اعلیٰ تک رسائی آسان ہوگئی۔ بولسنارو کے قابلِ بحث نظریات کے باوجود انہیں اپنی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ ابھرتی ہوئی معیشت والے ایک جمہوری ملک کے آئینی طور چُنندہ صدر کے بطور مدعو کیا گیا تھا۔
یہ بات کوئی بھی پوچھ سکتا ہے کہ کئی بڑے اور دوست ممالک کو چھوڑ کر برازیل کے صدر کو ہی یوں مدعو کیا گیا تھا،لیکن اس کی وجوہات ڈھونڈنا مشکل نہیں ہے۔سیاسی طور دیکھا جائے تو برازیل بھارت کے ان چند اہم شراکت دار ممالک میں شامل ہے کہ جنہوں نے 2006میں ملک کے ساتھ اہم معاہدہ کیا ہوا ہے۔ ہ برازیل،روس،بھارت،چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل BRICS گروپ،بھارت،برازیل اور جنوبی افریقہ پر مشتمل IBSA گروپ اور G-20 کا رکن ہے۔ برازیل،جرمنی، بھارت اور جاپان پر مشتمل G4 کے ارکان کے بطور برازیل اور بھارت نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کیلئے ایک دوسرے کی امیدواری کی حمایت کی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ میں برازیل نے دہشت گردی،SDGs اور امن اقدامات کو لیکر ہمیشہ ہی بھارت کی حمایت کی ہے۔
تجارتی لحاظ سے بھی یہ دونوں معیشتیں 2010 میں تقریباً مساوی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کے ساتھ اکٹھے چلی تھیں جسکے بعد برازیل کساد بازاری کا شکار ہوگیا تھا اور اب حال ہی میں بھارتی معیشت نے بھی سُست روی دکھائی ہے ۔تاہم برازیل اب بھی ہمارے لیے نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسکے پاس دنیا میں لوہے کے سب سے بڑے ذخائر اور ہائبرڈ توانائی کیلئے ایتھونول کے بڑے ذرائع ہیں۔یہاں تک کہ برازیل کے پاس، اندازاً، خام تیل کے قریب 82 ارب بیرل ہیں جو خلیج میں موجودہ غیر یقینی صورتحال میں ہمارے لیے روایتی توانائی کا ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ اس شعبہ میں ہمارا پہلے سے ہی آپسی تعاون کا معاہدہ ہوجود ہے۔ قابلِ کاشت زمین کے محض 20فیصد سے کچھ زیادہ (جو بھارت کی قابلِ کاشت زمین کا 2.7گنا ہے)کے زیرِ استعمال ہونے کے باوجود برازیل چینی،کافی اور سویا بین کا سب سے بڑا کاشت کار ملک ہے جبکہ اسکے پاس دنیا کے جنگلوں کا زائد از 20فیصد ہے اور یہاں کافی تعداد میں ادویات کے پودے اگتے ہیں۔ پیداواری صنعت میں برازیل نے جو بڑی جدوجہد کی ہے وہ ہمیں سبق دیتے ہوئے ممکنہ تعاون پر ابھار سکتی ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ 1896 میں ہمارے علاقہ گیر سے 700گائیں درآمد کرنے والا برازیل ابھی،مویشیوں میں جینیاتی طور بہتری لانے سے، دنیا میں گوشت کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور دودھ سے بننے والی اشیاء بنانے والا ایک بڑا ملک بن گیا ہے۔ ہم نے MERCOSUR کے ساتھ، جس کا برازیل سب سے اہم رکن ہے،بھی آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
سماجی طور، برازیل کا اپنی غریب آبادی کی حالت بہتر بنانے کا پروگرام بھی قابلِ تعریف ہے۔ملک کا 'بولسا فیمیلیا'(فیملی پیکیج)پروگرام لگاتار زیرِ نگرانی رکھے جانے والے اعدادوشمار کی بنیاد پر خطہ افلاس سے نیچے رہنے والے خاندانوں کیلئے چلایا جانے والا ایک امدادی پروگرام ہے۔ اس کے تحت ،یہ ثابت کیے جانے پر کہ خاندان کے لوگ مسلسل اپنے صحت کی جانچ کرواتے ہیں اور بچے لگاتار سکول جاتے ہیں،مردوں کی بجائے خاندان کی خواتین کے بنک کھاتوں میں مالی امداد جمع کرائی جاتی ہے۔بھارت نے ابھی حال ہی میں جزوی طور اس پروگرام کو نافذ کیا ہے لہٰذا برازیل ہمارے یہاں باہمی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ایک اہم ملک ہے۔
برازیلی صدر کے جاری بھارتی دورے کے دوران دونوں ممالک نے صنعت سے لیکر ،شہری ہوابازی،صحت،روایتی ادویات،زراعت،توانائی،کان کنی،جدت طرازی اورمویشی پالن سے لیکردفاعی پیداوار تک کے مختلف شعبوں میں باہمی اشتراک کے پندرہ مفاہمت ناموں یامعاہدوں پر دستخط کئے۔ان معاہدوں پر عمل درآمد ہونے سے ہماری معیشت کو ایک نیا فروغ ملے گا۔