ETV Bharat / business

سرمایہ کاروں کی مدد

author img

By

Published : Feb 13, 2020, 10:43 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 4:40 AM IST

حالیہ بجٹ میں حالیہ بجٹ میں دیپازٹ انشورنس کو ایک لاکھ روپے سے پانچ لاکھ روپے تک بڑھاکر مرکزی حکومت نے کواپریٹیو بینکوں پر گاہکوں کا اعتماد بحال کرنے کا ایک فوری اقدام کیا ہے۔لیکن اب موثر قواعد و ضوابط، مضبوط نظام اور نگرانی جیسے اقدامات سے بینکوں کے اندرونی نظام کے عناصر کی مدد سے ہورہی دھوکہ دہی کو روکا جاسکتا ہے۔

سرمایہ کاروں کی مدد
سرمایہ کاروں کی مدد

مستقبل کے لیے کچھ بچت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے طرز زندگی بہتر ہو۔ ہمارا معاشرہ، جس میں بچوں تک کو اپنی جیب خرچ میں سے بچت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، وہیں بینکوں کو بھروسے اور اعتبار کا منبع سمجھا جاتا ہے۔

بینکوں میں کی جانے والی بچت میں تھوڑا بہت سود ملنے، ان پر یقین اور بھروسہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے اپنے خون پسینے کا پیسہ کواپریٹو بینکوں میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن پنجاب مہاراشٹرا کوآپریٹو بینک ( پی ایم سی ) میں حالیہ سکینڈل نے بینکوں کے بارے میں یہ جھوٹے تاثر کو بے نقاب کیا ہے اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) جیسے اداروں کی جانب سے بینکوں کو کنٹرول کرنے میں غیر موثر ثابت ہوا۔

اب حکومت نے حالیہ بجٹ میں یہ عزم ظاہر کی ہے کہ اس طرح کی دھاندلیوں کو دوبارہ کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے کہا ہے کہ کواپریٹیو بینکوں میں پروفیشنلزم کو فروغ دینے کے لئے 'بینکنگ ریگولیشن ایکٹ' میں ترمیمات کی جائیں گی ۔تاکہ ان میں سرمایہ کاری کے مواقعے بڑھ جائیں اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے انہیں آر بی آئی کی نگرانی میں لایا جائے گا۔

لہٰذا مودی حکومت نے ایک قانون پاس کرکے آر بی آئی کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ 1 ہزار 540کواپریٹیو بینکوں کے 8.6کروڑ بھارتی گاہکوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں اپنے اختیارات استعمال کرے۔

پہلے رائج طریقے کے مطابق کواپریٹیو رجسٹرار ،کواپریٹیو بینکوں کے مالی پہلوؤں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ لیکن اب کواپریٹیو بینکوں کو وقت وقت پر آر بی آئی کے رہنما قوائد کی اطاعت کرنی ہوگی۔

اب کمرشل بینکوں کی طر ح کواپریٹیو بینکوں کو بھی چیف ایگزیکٹیو افسران کی تقرری کے وقت پہلے آر بی آئی کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔حساب کتاب کی جانچ پڑتال کے معمول کے عمل میں بھی آر بی آئی کے طے شدہ ضوابط کا اطلاق ہوگا۔

اب آر بی آئی کو یہ اختیار ملے گا کہ وہ کمزور کواپریٹیو بینکوں کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے سکے۔ حقیقت میں کواپریٹیو بینکوں کی پہچان کو تحفظ دینے اور دھاندلیاں روکنے کے لیے یہ اقدامات بہت پہلے کیے جانے چاہیے تھے۔

شہری کواپریٹیو بینکوں کے قیام کا مقصد بنیادی طور پر شہروں میں چھوٹے صنعت کاروں، پرچون فروشوں، چھوٹے طرز کی تجارت اورپیشہ ور افراد کو مالی خدمات فراہم کرنا ہے۔ اگر ان بینکوں کا نظم و نسق درست طریقے سے چلایا گیا ہوتا تو آج یہ بینک متذکرہ شعبوں کی معیشت کو بہتر بنانے میں ایک موثر کردار اداکررہے ہوتے ۔ لیکن خود غرض عناصر کے ہاتھوں میں پھنسے رہنے کی وجہ سے ان بینکوں میں بے بس سرمایہ کارو دھوکہ کھا رہے ہیں، جو بڑے اعتماد کے ساتھ ان بینکوں کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

نراسمہا مورتی کمیٹی نے اپنے جائزے میں شہری کواپریٹیو بینکوں کی غیر منظم ہونے کی وجوہات بتائی ہیں، اُن میں مناسب سرمایہ کی عدم موجودگی، جعلی ممبر شپ، قرضے فراہم کرنے کے اختیار ایک ہی مرکز کے پاس ہونا، قرضے فراہم کرنے میں اقربا پروری سے کام لینے اور قرضے واپس حاصل کرنے میں کوتاہی جیسے وجوہات شامل ہیں۔ ان ساری خامیوں کے ہوتے ہوئے دوسری جانب بینکوں کی تعداد اور ان میں گاہکوں کی جانب سے رکھے جانے والے پیسے کا حجم بڑھتا گیا۔

سال 1991 میں ملک میں شہری کواپریٹیو بینکوں کی تعداد 1,307تھی اور ان میں 8,600کروڑ روپے جمع تھے۔ سال 2004 تک بینکوں کی شاخوں کی تعداد 2,105ہوگئی اور ان کے پاس لوگوں کی جانب سے بطور امانت رکھی گئی رقم ایک لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ۔

اب مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے ان بینکوں کی تعداد کم ہو کر 1,540ہوگئی ہے ۔لیکن ان میں ڈیپازٹ پیسہ پانچ لاکھ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مزید دھاندلیوں کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

پنچاب مہاراشٹرا کواپریٹیو بینک ( پی ایم سی )، جو سات ریاستوں میں موجود ہے اور جس کے پاس 11 ہزار 600کروڑ روپے ڈیپازٹ ہیں، اس میں 6,500کرور یعنی اسکے70فی صد سے زائد اثاثوں کالوٹ کھسوٹ کرنے کے لیے 21,000جعلی اکائونٹ کھولے گئے تھے ۔ اب جبکہ یہ بینک آر بی آئی کی براہ راست نگرانی میں ہیں، اسلئے اب ان میں غیر قانونی حرکتوں کو روکنا یقینی بنا یا جانا ضروری ہے۔

سال 2002میں خود مرکزی حکومت کو پتہ چلا کہ کواپریٹیو بینکوں میں بدحالی کی ایک عام وجہ کواپریٹیو بینکنگ سیکٹر میں جوائنٹ کنٹرول نظام کا ہونا ہے۔جب بھی ان کے بورڈ راتوں رات بدل دیے جاتے ہیں ، تب عمومی طور پر کواپریٹیو رجسٹرار اور ریزرو بینک آف انڈیا ( آر بی آئی ) ذمہ داری ایک دوسرے کے سر پر ڈالتے ہیں۔

اس ضمن میں معیاری سفارشات پر گزشتہ 16سال سے کوئی عمل نہیں ہورہا ہے۔ ان سفارشات میں بتایا گیا تھا کہ بینکوں کی انتظامی بورڈز میں فائنانس بینکنگ اور آڈٹ سیکٹرز سے ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔کواپریٹیو بینکوں کو اس بات کا پابند بنایا جانا ہوگا کہ وہ اپنے گاہکوں کو 2فیصد سے زیادہ اور شیڈولڈ بینکوں کی جانب سے دیے جانے والے سود سے زیادہ اپنے گاہکوں کو فراہم نہ کریں اور ڈیپازٹ انشورنس کو بڑھا کر 2.5لاکھ تک کیا جانا چاہیے۔

حالیہ بجٹ میں دیپازٹ انشورنس کو ایک لاکھ روپے سے پانچ لاکھ روپے تک بڑھاکر مرکزی حکومت نے کواپریٹیو بینکوں پر گاہکوں کا اعتماد بحال کرنے کا ایک فوری اقدام کیا ہے ۔ چونکہ کواپریٹیو سوسائٹیز کو آئین ہند کا سپورٹ حاصل ہے، اس لئے ہم انہیں مسترد بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

تاہم سابق ڈپٹی گورنر آر گاندھی کی سربراہی میں کمیٹی نے سفارش پیش کی ہے کہ شیڈولڈبینکوں کی طرح کواپریٹیو بینکوں کو بھی اپنے اختیارات 'بورڈ آف منیجمنٹ' کے تابع رکھنے چاہیں۔ اس سال کے ابتدا میں آر بی آئی نے رہنما اصول جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کواپریٹیو بینکوں کو ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایک بورڈ آف مینجمنٹ قائم کرنا چاہیے، جن کے پاس ایک سو کروڑ سے زائد ڈیپازٹز ہیں۔

موثر قواعد و ضوابط ، مضبوط نظام اور تیز طرار نگرانی جیسے اقدامات سے اس دھوکہ دہی کو روکا جاسکتا ہے، جو ان بینکوں کے اندرونی نظام کے عناصر کی مدد سے ہورہی ہے۔

مستقبل کے لیے کچھ بچت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے طرز زندگی بہتر ہو۔ ہمارا معاشرہ، جس میں بچوں تک کو اپنی جیب خرچ میں سے بچت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، وہیں بینکوں کو بھروسے اور اعتبار کا منبع سمجھا جاتا ہے۔

بینکوں میں کی جانے والی بچت میں تھوڑا بہت سود ملنے، ان پر یقین اور بھروسہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے اپنے خون پسینے کا پیسہ کواپریٹو بینکوں میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن پنجاب مہاراشٹرا کوآپریٹو بینک ( پی ایم سی ) میں حالیہ سکینڈل نے بینکوں کے بارے میں یہ جھوٹے تاثر کو بے نقاب کیا ہے اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) جیسے اداروں کی جانب سے بینکوں کو کنٹرول کرنے میں غیر موثر ثابت ہوا۔

اب حکومت نے حالیہ بجٹ میں یہ عزم ظاہر کی ہے کہ اس طرح کی دھاندلیوں کو دوبارہ کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے کہا ہے کہ کواپریٹیو بینکوں میں پروفیشنلزم کو فروغ دینے کے لئے 'بینکنگ ریگولیشن ایکٹ' میں ترمیمات کی جائیں گی ۔تاکہ ان میں سرمایہ کاری کے مواقعے بڑھ جائیں اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے انہیں آر بی آئی کی نگرانی میں لایا جائے گا۔

لہٰذا مودی حکومت نے ایک قانون پاس کرکے آر بی آئی کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ 1 ہزار 540کواپریٹیو بینکوں کے 8.6کروڑ بھارتی گاہکوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں اپنے اختیارات استعمال کرے۔

پہلے رائج طریقے کے مطابق کواپریٹیو رجسٹرار ،کواپریٹیو بینکوں کے مالی پہلوؤں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ لیکن اب کواپریٹیو بینکوں کو وقت وقت پر آر بی آئی کے رہنما قوائد کی اطاعت کرنی ہوگی۔

اب کمرشل بینکوں کی طر ح کواپریٹیو بینکوں کو بھی چیف ایگزیکٹیو افسران کی تقرری کے وقت پہلے آر بی آئی کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔حساب کتاب کی جانچ پڑتال کے معمول کے عمل میں بھی آر بی آئی کے طے شدہ ضوابط کا اطلاق ہوگا۔

اب آر بی آئی کو یہ اختیار ملے گا کہ وہ کمزور کواپریٹیو بینکوں کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے سکے۔ حقیقت میں کواپریٹیو بینکوں کی پہچان کو تحفظ دینے اور دھاندلیاں روکنے کے لیے یہ اقدامات بہت پہلے کیے جانے چاہیے تھے۔

شہری کواپریٹیو بینکوں کے قیام کا مقصد بنیادی طور پر شہروں میں چھوٹے صنعت کاروں، پرچون فروشوں، چھوٹے طرز کی تجارت اورپیشہ ور افراد کو مالی خدمات فراہم کرنا ہے۔ اگر ان بینکوں کا نظم و نسق درست طریقے سے چلایا گیا ہوتا تو آج یہ بینک متذکرہ شعبوں کی معیشت کو بہتر بنانے میں ایک موثر کردار اداکررہے ہوتے ۔ لیکن خود غرض عناصر کے ہاتھوں میں پھنسے رہنے کی وجہ سے ان بینکوں میں بے بس سرمایہ کارو دھوکہ کھا رہے ہیں، جو بڑے اعتماد کے ساتھ ان بینکوں کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

نراسمہا مورتی کمیٹی نے اپنے جائزے میں شہری کواپریٹیو بینکوں کی غیر منظم ہونے کی وجوہات بتائی ہیں، اُن میں مناسب سرمایہ کی عدم موجودگی، جعلی ممبر شپ، قرضے فراہم کرنے کے اختیار ایک ہی مرکز کے پاس ہونا، قرضے فراہم کرنے میں اقربا پروری سے کام لینے اور قرضے واپس حاصل کرنے میں کوتاہی جیسے وجوہات شامل ہیں۔ ان ساری خامیوں کے ہوتے ہوئے دوسری جانب بینکوں کی تعداد اور ان میں گاہکوں کی جانب سے رکھے جانے والے پیسے کا حجم بڑھتا گیا۔

سال 1991 میں ملک میں شہری کواپریٹیو بینکوں کی تعداد 1,307تھی اور ان میں 8,600کروڑ روپے جمع تھے۔ سال 2004 تک بینکوں کی شاخوں کی تعداد 2,105ہوگئی اور ان کے پاس لوگوں کی جانب سے بطور امانت رکھی گئی رقم ایک لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ۔

اب مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے ان بینکوں کی تعداد کم ہو کر 1,540ہوگئی ہے ۔لیکن ان میں ڈیپازٹ پیسہ پانچ لاکھ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مزید دھاندلیوں کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

پنچاب مہاراشٹرا کواپریٹیو بینک ( پی ایم سی )، جو سات ریاستوں میں موجود ہے اور جس کے پاس 11 ہزار 600کروڑ روپے ڈیپازٹ ہیں، اس میں 6,500کرور یعنی اسکے70فی صد سے زائد اثاثوں کالوٹ کھسوٹ کرنے کے لیے 21,000جعلی اکائونٹ کھولے گئے تھے ۔ اب جبکہ یہ بینک آر بی آئی کی براہ راست نگرانی میں ہیں، اسلئے اب ان میں غیر قانونی حرکتوں کو روکنا یقینی بنا یا جانا ضروری ہے۔

سال 2002میں خود مرکزی حکومت کو پتہ چلا کہ کواپریٹیو بینکوں میں بدحالی کی ایک عام وجہ کواپریٹیو بینکنگ سیکٹر میں جوائنٹ کنٹرول نظام کا ہونا ہے۔جب بھی ان کے بورڈ راتوں رات بدل دیے جاتے ہیں ، تب عمومی طور پر کواپریٹیو رجسٹرار اور ریزرو بینک آف انڈیا ( آر بی آئی ) ذمہ داری ایک دوسرے کے سر پر ڈالتے ہیں۔

اس ضمن میں معیاری سفارشات پر گزشتہ 16سال سے کوئی عمل نہیں ہورہا ہے۔ ان سفارشات میں بتایا گیا تھا کہ بینکوں کی انتظامی بورڈز میں فائنانس بینکنگ اور آڈٹ سیکٹرز سے ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔کواپریٹیو بینکوں کو اس بات کا پابند بنایا جانا ہوگا کہ وہ اپنے گاہکوں کو 2فیصد سے زیادہ اور شیڈولڈ بینکوں کی جانب سے دیے جانے والے سود سے زیادہ اپنے گاہکوں کو فراہم نہ کریں اور ڈیپازٹ انشورنس کو بڑھا کر 2.5لاکھ تک کیا جانا چاہیے۔

حالیہ بجٹ میں دیپازٹ انشورنس کو ایک لاکھ روپے سے پانچ لاکھ روپے تک بڑھاکر مرکزی حکومت نے کواپریٹیو بینکوں پر گاہکوں کا اعتماد بحال کرنے کا ایک فوری اقدام کیا ہے ۔ چونکہ کواپریٹیو سوسائٹیز کو آئین ہند کا سپورٹ حاصل ہے، اس لئے ہم انہیں مسترد بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

تاہم سابق ڈپٹی گورنر آر گاندھی کی سربراہی میں کمیٹی نے سفارش پیش کی ہے کہ شیڈولڈبینکوں کی طرح کواپریٹیو بینکوں کو بھی اپنے اختیارات 'بورڈ آف منیجمنٹ' کے تابع رکھنے چاہیں۔ اس سال کے ابتدا میں آر بی آئی نے رہنما اصول جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کواپریٹیو بینکوں کو ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایک بورڈ آف مینجمنٹ قائم کرنا چاہیے، جن کے پاس ایک سو کروڑ سے زائد ڈیپازٹز ہیں۔

موثر قواعد و ضوابط ، مضبوط نظام اور تیز طرار نگرانی جیسے اقدامات سے اس دھوکہ دہی کو روکا جاسکتا ہے، جو ان بینکوں کے اندرونی نظام کے عناصر کی مدد سے ہورہی ہے۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 4:40 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.