انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت کسی بھی پلیٹ فارم پر پابندی عائد کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ' اُنہیں قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔'
انہوں نے کہا کہ اگر صدرجمہوریہ اور وزیر اعظم سمیت حکومت سے وابستہ آدھے افراد ٹوئٹر پر ہیں تو اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کس قدر شفاف ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب واشنگٹن میں Capitol Hill پر حملہ کیا گیا تھا تو ٹوئٹر نے اُس وقت کے امریکی صدر سمیت سب کے اکاﺅنٹس کو بلاک کر دیا تھا۔
روی شنکر پرساد نے کہا کہ' کسانوں کی ہڑتال کے دوران اور جب شرپسندوں کے حامیوں نے لال قلعے پر حملہ کیا، تلواریں لہرائیں، پولیس والوں کو زخمی کیا اور اُنہیں کھائی میں دھکّا دیا تو کیا یہ اظہار رائے کی آزادی تھی۔'
پرساد نے کہا کہ اگر Capitol Hill امریکہ کے لیے باعث فخر ہے تو لال قلعہ بھارت کے لیے قابلِ فخر ہے، جہاں وزیر اعظم ترنگا لہراتے ہیں۔'
انہوں نے لداخ کے کچھ حصوں کو چین کے علاقے کے طور پر دکھانے کے لیے ٹوئٹر کی نکتہ چینی بھی کی اور اس بات کو اُنہیں سمجھانے اور ٹوئٹر پر سے ہٹانے کے لیے 15 دن کا وقت لگا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جمہوریت کے طور پر بھارت کو اپنی ڈیجیٹل خودمختاری کی حفاظت کا یکساں حق حاصل ہے۔'
غازی آباد کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔ پرساد نے البتہ یہ سوال کیا کہ اگر ٹوئٹر میں کسی خاص ٹوئٹ کو Manipulative قرار دینے کا ضابطہ ہے تو پھر اسے غازی آباد کے معاملے میں کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا وزیروں سے سوال کرتا ہے اور یہ اظہار رائے کی آزادی ہے اور جمہوریت ہے، لیکن اس کے پردے میں اگر وہ ان ضابطوں پر عمل نہیں کرتے تو یہ ایک گمراہ کُن دلیل قرار پاتی ہے۔'