فصلوں کی منیمم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کے معاملے پر کسان محض وعدے نہیں بلکہ حکومت سے ضمانت چاہتی ہے کہ ایم ایس پی سے کم کوئی بھی فصل فروخت نہ۔ زراعت کے شعبے میں اصلاحات کے نئے بل کو جسے حکومت ایک تاریخی بل قرار دے رہی ہے، در حقیقت کسان اس قانون کو ایم ایس پی کی ضمانت کے بغیر بے سود قرارا دے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اتور کے روز زراعتی اصلاحات سے متعلق دو بل 'کسانوں کی پیداوار کے کاروبار اور تجارت (فروغ اور سہل کاری) بل 2020' اور 'کسان (تفویض اختیار اور تحفظ) کو قیمت کی یقین دہانی اور زراعتی خدمات کا معاہدہ بل، 2020 کو صوتی ووٹ کے ذریعہ منظوری مل گئی ہے۔
پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کے کسان، جہاں ایم ایس پی پر گندم اور دھان کی سرکاری خریداری بڑے پیمانے پر ہوتی ہے ان بلوں کا وہاں سب سے زیادہ مخالفت بھی ہورہی ہیں۔
پنجاب میں بھارتیہ کسان یونین (بی کے آئی یو) کے ریاستی صدر اور آل انڈیا کوآرڈینیشن کمیٹی کے سینئر کو آرڈینیٹر اجمیر سنگھ لکھوال نے بتایا کہ یہ بل کسانوں کے مفاد میں نہیں ہیں کیونکہ اس میں ایم ایس پی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار چاہتے ہیں کہ ان کی کوئی بھی فصل ایم ایس پی سے نیچے فروخت نہ ہو۔ بی کے یو رہنما نے کہا کہ خریداری کے انتظامات کیے بغیر ایم ایس پی کے اعلان سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
بہار میں ایم ایس پی پر صرف دھان اور گندم کی خریداری ہوتی ہے۔ بہار کے مدھی پورہ ضلع کے کسان پلوت پرساد یادو نے کہا کہ کمیشن برائے زرعی لاگت اور قیمتوں کی سفارش پر ہر برس حکومت 22 فصلوں کا ایم ایس پی اور گنے کی بقایا قیمت، یعنی ایف آر پی طے کرتی ہے، لیکن ملک بھر میں صرف چند کسانوں کو کچھ فصلیں پر ہی ایم ایس پی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا تیقن دینا چاہیے کہ وہ کسانوں کے مفاد میں تمام طے شدہ فصلوں کا ایم ایس پی ملے۔
انہوں نے کہا کہ شانتا کمار کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک کے صرف چھ فیصد کسانوں کو ایم ایس پی کا فائدہ ملتا ہے، لہذا ملک کے تمام کسان کم از کم ایم ایس پی پر فروخت ہو پائے اس نظام کی ضرورت ہے۔
کسانوں کی اس شکایت ذکر راجیہ سبھا میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رکن پارلیمنٹ ستیش چندر مشرا نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جن کسانوں نے احتجاج کیا ہے انہیں صرف ایک ہی خوف ہے کہ اس بل کے بعد انہیں ایم ایس پی کا فائدہ ملنا بند ہوجائے گا۔ بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ نے کہا اگر کسانوں کو بل میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انہیں کم سے کم سپورٹ قیمت مل جائے گی، تو شاید آج یہ بات چیت کی نوبت نہیں آتی۔
کسانوں کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے تاجر بھی زرعی بلوں پر کھڑے ہیں کیونکہ فارمرز ٹریڈ اینڈ کامرس (فروغ اور سہولت) بل 2020 اور کسانوں (ایمپاورمنٹ اور پروٹیکشن) پرائس انشورنس کا اے پی ایم سی سے باہر کی فصلوں کی فروخت پر کوئی فیس نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اے پی ایم سی منڈیوں کا پورا نظام ختم ہونے کا ڈر ستا رہا ہے۔ تاہم مرکزی وزیر زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر نریندر سنگھ تومر نے کسانوں اور تاجروں کو یقین دلایا ہے کہ ان بلوں سے نہ تو کسانوں سے فصلوں کی خریداری پر ایم ایس پی متاثر ہوگی اور نہ ہی اے پی ایم سی ایکٹ کے تحت چلنے والی منڈیوں کے کام پر اثر پڑے گا۔
جبکہ راجستھان فوڈ ٹریڈ ایسوسی ایشن کے چیئرمین بابو لال گپتا کا کہنا ہے کہ جب مارکیٹ کے باہر کوئی فیس نہیں لگتا تومنڈی میں کوئی کیوں آنا چاہیے گا۔ ایسے منڈی کا کاروبار متاثر ہوگا
ہریانہ میں کسانوں نے ریاست میں سڑکیں روک کر کسان بلوں پر احتجاج کیا۔ بھاکیو کے ہریانہ کے ریاستی صدر گورم سنگھ نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ ریاست بھر کے کسانوں نے اتوار کے روز اس بل کی مخالفت کی ہے اور اب بل منظور ہونے کے بعد احتجاج مزید تیز ہوجائے گا۔