ETV Bharat / business

زرعی اشیاء کی برآمدات میں 23.24 فیصد کا اضافہ

author img

By

Published : Aug 18, 2020, 7:23 PM IST

عالمی تجارتی تنظیم کے تجارتی اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2017 میں دنیا کی زرعی تجارت میں بھارت کی زرعی برآمدات اور درآمدات کا حصہ بالترتیب 2.27 فیصد اور 1.90 فیصد تھا۔

agricultural export jumps 23.24% during March-June 2020 despite pandemic
agricultural export jumps 23.24% during March-June 2020 despite pandemic

نئی دہلی: آتم نربھر بھارت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے خود کفیل زراعت لازمی ہے۔ اس کے لیے زرعی بر آمدات انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ ملک کے لیے گراں قدر غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، بر آمدات سے کسانوں؍ برآمد کاروں کو بر آمدات کرنے میں مدد ملتی ہے، تاکہ وہ ایک وسیع بین الاقوامی مارکیٹ سے فائدہ حاصل کرسکیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔

عالمی تجارتی تنظیم کے تجارتی اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2017 میں دنیا کی زرعی تجارت میں بھارت کی زرعی برآمدات اور درآمدات کا حصہ بالترتیب 2.27 فیصد اور 1.90 فیصد تھا۔ وبا کی وجہ سے عائد لاک ڈاؤن کے مشکل حالات کے دوران بھارت نے اس بات کا خیال کیا کہ عالمی خوراک کی سپلائی چین میں کوئی رخنہ نہ پڑے، لہذا اس نے بر آمدات کو جاری رکھا۔ مارچ 2020 سے جون 2020 کے درمیان زرعی اشیاء کی بر آمدات 25552.7 کروڑ روپے تھی، جبکہ 2019 میں اسی مدت کے دوران یہ بر آمدات 20734.8 کروڑ روپے تھی، جس سے 23.24 فیصد کے زبردست اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کی زرعی جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر زرعی بر آمدات میں 2017-18 میں 9.4 فیصد سے 19-2018 میں 9.9 فیصد تک اضافہ ہوا۔ جبکہ بھارت کی زرعی جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر زرعی در آمدات میں 5.7 فیصد سے 4.9 فیصد تک گراوٹ آئی، جس سے بھارت میں قابل بر آمد اضافی سامان کا پتہ چلتا ہے اور زرعی مصنوعات کی در آمد پر انحصار میں کمی کا اندازہ ہوتا ہے۔

آزادی سے لے کر اب تک زرعی بر آمدات میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔ سنہ 51-1950 میں بھارت کی زرعی بر آمدات تقریبا 149 کروڑ روپے تھی، جو 20-2019 دو لاکھ 53 ہزار کروڑ روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔ پچھلے 15 برسوں میں تقریبا سبھی زرعی اشیاء کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن بھارت کا شمار زرعی مصنوعات کے سرکردہ پیداوار کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس کا شمار زرعی مصنوعات کے چوٹی کے برآمد کاروں میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر بھارت گیہوں کی پیداوار کرنے والا دنیا کا دوسرے درجہ کا حامل ہے، لیکن اس کا شمار برآمدات میں 34 ویں نمبر پر کیا جاتا ہے، اسی طرح سبزیوں کی پیداوار میں بھی اس کا نمبر دنیا میں تیسرا ہونے کے باوجود برآمدات میں اس کا درجہ محض 14 واں ہے۔ یہی سلسلہ پھلوں میں بھی ہے، جہاں دنیا میں پھلوں کی پیداوار میں بھارت کا دوسرا درجہ ہے لیکن بر آمدات میں اس کا درجہ 23 واں ہے۔ زراعت میں چوٹی کے برآمدکار ملکوں میں شامل ہونے کے لیے اس بات کی واضح ضرورت ہے کہ پہلے سے سرگرم ہوا جائے۔

اس کے پیش نظر ڈی اے سی اینڈ ایف ڈبلیو نے زرعی تجارت کے فروغ کے تئیں ایک جامع لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار کی ہے۔ پیداوار سے پہلے، پیداوار کے دوران اور فصل کے بعد سے متعلق اعداد وشمار اور معاملات کو تفصیل سے جاننے کا کام شروع کیا گیا ہے تاکہ ایک مجموعی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے شروع سے آخر تک کا ایک طریقہ کار تشکیل دیا جائے۔

بر آمدات سے متعلق حکمت عملی میں تندرستی سے متعلق خوراک؍ صحت کا خیال رکھتے ہوئے استعمال کی جانے والی خوراک؍ تغذیہ بخش غذاؤں کی تیزی سے ترقی کرنے والی مارکیٹ کے بر آمداتی فروغ پرتوجہ دی گئی ہے۔ برانڈ انڈیا کو ایک مہم کے انداز میں فروغ دینا تاکہ نئی غیر ملکی مارکیٹ میں داخل ہونے میں مدد ملے، نیز نئی مصنوعات کی تجارت کا موقع ملے؛ مارکیٹ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرنے کے لیے خلیجی ملکوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جو بھارت کے لیے ایک مضبوط منڈی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ باغبانی ایک ابھرتا ہوا ذیلی شعبہ ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں بھارت دوسرے مقام پر ہے۔ بھارت 8 لاکھ 23 ہزار میٹرک ٹن پھل برآمدت کرتا ہے، جس کی مالیت 5 ہزار 638 کروڑ روپے ہے اور وہ 31.92 ایل ایم ٹی سبزیوں کی برآمد کرتا ہے جس کی مالیت 5 ہزار 679 کروڑ روپے سالانہ ہے۔ بھارت کے تازہ پھلوں کی برآمدات میں انگور پہلے نمبر پر ہیں، جس کے بعد آم، انار، کیلا اور سنترے کا نمبر ہے۔

تازہ سبزیوں کی برآمدات میں پیاز، ملی جلی سبزیاں، آلو، ٹماٹر اور ہری مرچ اہم اشیاء ہیں۔ جبکہ پھلوں اور سبزیوں کی عالمی تجارت 208 ارب امریکی ڈالر کی ہے اور بھارت میں اس کا حصہ بہت معمولی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات میں اضافے کا بہت بڑا امکان موجود ہے۔

اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ موجودہ زرعی کلسٹرز کو مستحکم بنائے جانے کی ضرورت ہے، اور بڑے پیمانے پر مقدار اور معیار کے اعتبار سے، سپلائی میں خلاء کو پر کرنے کے لیے پیداوار کے مزید کلسٹرز تیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔ مقررہ وقت پر ایک لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت خوردنی تیل، کاجو ، پھلوں اور مسالحوں کی در آمدات کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے تاکہ بھارت کو خود کفیل بنایا جاسکے۔

زراعت کی وزارت کے تحت زرعی تعاون اور کسانوں کی بہبود کے محکمے کی طرف سے پیداوار کے لیے مخصوص بر آمدات کے فروغ کے فورم تشکیل دیئے گئے ہیں تاکہ زرعی بر آمدات کو نئی اونچائیوں تک پہنچایا جاسکے۔ زرعی اور اس سے متعلقہ 8 اشیاء کی پیداوار کے لیے بر آمدات کے فروغ کے فورم تشکیل دئے گئے ہیں، جو اس طرح ہیں، انگور، آم، کیلا ، پیاز، چاول، تغذیہ بخش دالیں، انار اور مختلف قسم کے پھول۔

برآمدات کی ترقی کے ہر فورم میں متعلقہ شے کے برآمدکار ہوں گے، جن کی حیثیت اس کے ارکان کی ہوگی۔ اس کے علاوہ اس فورم میں سرکاری ارکان بھی ہوں گے، جو مرکزی اور ریاستی سرکاروں کی وزارتوں یا متعلقہ محکموں کی نمائندگی کریں گے۔ اپیڈا چیئر مین ان میں سے ہر ایک فورم کا چیئر مین ہوگا۔ اس فورم کی کم سے کم ہر دو مہینے میں میٹنگ ہوگی۔ تاکہ متعلقہ اشیاء کی برآمدات سے متعلق معاملات پر کی گئی سفارشات پر بات چیت کی جاسکے اور ماہرین کو مدعو کیا جاسکے۔

یہ فورم اپنی متعلقہ اشیاءکی پیداوار اور برآمدات سے متعلق بیرونی اور اندرونی صورت حال پر لگاتار گہری نظر رکھے گا اور تازہ ترین واقعات کا جائزہ لیتا رہے گا۔ نیز وہ لازمی پالیسی یا انتظامی اقد امات کرتا رہے گا۔ یہ لوگ پیداوار کرنے والوں، بر آمد کاروں اور متعلقہ اشیاء سے متعلق دیگر فریقوں کے لگاتار رابطے میں رہیں گے۔ ان کی پریشانیاں سنیں گے، ان کے لیے سہولیات مہیا کریں گے اور ان کی مدد اور ان کی پریشانیوں کے حل پیش کریں گے۔ یہ لوگ عالمی سطح پر متعلقہ اشیاء کی مارکیٹ کا لگاتار مطالعہ کریں گے۔ نیز گھریلو کمپنیوں کی پیچیدگیوں، نئے موقعوں اور تازہ ترین حالات کا لگا تار جائزہ لیتے رہیں گے۔

فورم کی سفارشات کو پیداوار سے متعلق کمیٹی ؍ ایپیڈا کی اتھارٹی کو پیش کیا جائے گا۔ یہ فورم ایم آئی ڈی ایچ ، ایکسٹنشن این پی پی او وغیرہ جیسی زراعت کی وزارت اور شہری ہوا بازی کی وزارت کی متعلقہ تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے گا۔ تاکہ زرعی برآمد کاروں میں مزید دلچسپی پیدا کی جاسکے۔

نئی دہلی: آتم نربھر بھارت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے خود کفیل زراعت لازمی ہے۔ اس کے لیے زرعی بر آمدات انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ ملک کے لیے گراں قدر غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، بر آمدات سے کسانوں؍ برآمد کاروں کو بر آمدات کرنے میں مدد ملتی ہے، تاکہ وہ ایک وسیع بین الاقوامی مارکیٹ سے فائدہ حاصل کرسکیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔

عالمی تجارتی تنظیم کے تجارتی اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2017 میں دنیا کی زرعی تجارت میں بھارت کی زرعی برآمدات اور درآمدات کا حصہ بالترتیب 2.27 فیصد اور 1.90 فیصد تھا۔ وبا کی وجہ سے عائد لاک ڈاؤن کے مشکل حالات کے دوران بھارت نے اس بات کا خیال کیا کہ عالمی خوراک کی سپلائی چین میں کوئی رخنہ نہ پڑے، لہذا اس نے بر آمدات کو جاری رکھا۔ مارچ 2020 سے جون 2020 کے درمیان زرعی اشیاء کی بر آمدات 25552.7 کروڑ روپے تھی، جبکہ 2019 میں اسی مدت کے دوران یہ بر آمدات 20734.8 کروڑ روپے تھی، جس سے 23.24 فیصد کے زبردست اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کی زرعی جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر زرعی بر آمدات میں 2017-18 میں 9.4 فیصد سے 19-2018 میں 9.9 فیصد تک اضافہ ہوا۔ جبکہ بھارت کی زرعی جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر زرعی در آمدات میں 5.7 فیصد سے 4.9 فیصد تک گراوٹ آئی، جس سے بھارت میں قابل بر آمد اضافی سامان کا پتہ چلتا ہے اور زرعی مصنوعات کی در آمد پر انحصار میں کمی کا اندازہ ہوتا ہے۔

آزادی سے لے کر اب تک زرعی بر آمدات میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔ سنہ 51-1950 میں بھارت کی زرعی بر آمدات تقریبا 149 کروڑ روپے تھی، جو 20-2019 دو لاکھ 53 ہزار کروڑ روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔ پچھلے 15 برسوں میں تقریبا سبھی زرعی اشیاء کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن بھارت کا شمار زرعی مصنوعات کے سرکردہ پیداوار کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس کا شمار زرعی مصنوعات کے چوٹی کے برآمد کاروں میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر بھارت گیہوں کی پیداوار کرنے والا دنیا کا دوسرے درجہ کا حامل ہے، لیکن اس کا شمار برآمدات میں 34 ویں نمبر پر کیا جاتا ہے، اسی طرح سبزیوں کی پیداوار میں بھی اس کا نمبر دنیا میں تیسرا ہونے کے باوجود برآمدات میں اس کا درجہ محض 14 واں ہے۔ یہی سلسلہ پھلوں میں بھی ہے، جہاں دنیا میں پھلوں کی پیداوار میں بھارت کا دوسرا درجہ ہے لیکن بر آمدات میں اس کا درجہ 23 واں ہے۔ زراعت میں چوٹی کے برآمدکار ملکوں میں شامل ہونے کے لیے اس بات کی واضح ضرورت ہے کہ پہلے سے سرگرم ہوا جائے۔

اس کے پیش نظر ڈی اے سی اینڈ ایف ڈبلیو نے زرعی تجارت کے فروغ کے تئیں ایک جامع لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار کی ہے۔ پیداوار سے پہلے، پیداوار کے دوران اور فصل کے بعد سے متعلق اعداد وشمار اور معاملات کو تفصیل سے جاننے کا کام شروع کیا گیا ہے تاکہ ایک مجموعی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے شروع سے آخر تک کا ایک طریقہ کار تشکیل دیا جائے۔

بر آمدات سے متعلق حکمت عملی میں تندرستی سے متعلق خوراک؍ صحت کا خیال رکھتے ہوئے استعمال کی جانے والی خوراک؍ تغذیہ بخش غذاؤں کی تیزی سے ترقی کرنے والی مارکیٹ کے بر آمداتی فروغ پرتوجہ دی گئی ہے۔ برانڈ انڈیا کو ایک مہم کے انداز میں فروغ دینا تاکہ نئی غیر ملکی مارکیٹ میں داخل ہونے میں مدد ملے، نیز نئی مصنوعات کی تجارت کا موقع ملے؛ مارکیٹ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرنے کے لیے خلیجی ملکوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جو بھارت کے لیے ایک مضبوط منڈی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ باغبانی ایک ابھرتا ہوا ذیلی شعبہ ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں بھارت دوسرے مقام پر ہے۔ بھارت 8 لاکھ 23 ہزار میٹرک ٹن پھل برآمدت کرتا ہے، جس کی مالیت 5 ہزار 638 کروڑ روپے ہے اور وہ 31.92 ایل ایم ٹی سبزیوں کی برآمد کرتا ہے جس کی مالیت 5 ہزار 679 کروڑ روپے سالانہ ہے۔ بھارت کے تازہ پھلوں کی برآمدات میں انگور پہلے نمبر پر ہیں، جس کے بعد آم، انار، کیلا اور سنترے کا نمبر ہے۔

تازہ سبزیوں کی برآمدات میں پیاز، ملی جلی سبزیاں، آلو، ٹماٹر اور ہری مرچ اہم اشیاء ہیں۔ جبکہ پھلوں اور سبزیوں کی عالمی تجارت 208 ارب امریکی ڈالر کی ہے اور بھارت میں اس کا حصہ بہت معمولی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات میں اضافے کا بہت بڑا امکان موجود ہے۔

اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ موجودہ زرعی کلسٹرز کو مستحکم بنائے جانے کی ضرورت ہے، اور بڑے پیمانے پر مقدار اور معیار کے اعتبار سے، سپلائی میں خلاء کو پر کرنے کے لیے پیداوار کے مزید کلسٹرز تیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔ مقررہ وقت پر ایک لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت خوردنی تیل، کاجو ، پھلوں اور مسالحوں کی در آمدات کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے تاکہ بھارت کو خود کفیل بنایا جاسکے۔

زراعت کی وزارت کے تحت زرعی تعاون اور کسانوں کی بہبود کے محکمے کی طرف سے پیداوار کے لیے مخصوص بر آمدات کے فروغ کے فورم تشکیل دیئے گئے ہیں تاکہ زرعی بر آمدات کو نئی اونچائیوں تک پہنچایا جاسکے۔ زرعی اور اس سے متعلقہ 8 اشیاء کی پیداوار کے لیے بر آمدات کے فروغ کے فورم تشکیل دئے گئے ہیں، جو اس طرح ہیں، انگور، آم، کیلا ، پیاز، چاول، تغذیہ بخش دالیں، انار اور مختلف قسم کے پھول۔

برآمدات کی ترقی کے ہر فورم میں متعلقہ شے کے برآمدکار ہوں گے، جن کی حیثیت اس کے ارکان کی ہوگی۔ اس کے علاوہ اس فورم میں سرکاری ارکان بھی ہوں گے، جو مرکزی اور ریاستی سرکاروں کی وزارتوں یا متعلقہ محکموں کی نمائندگی کریں گے۔ اپیڈا چیئر مین ان میں سے ہر ایک فورم کا چیئر مین ہوگا۔ اس فورم کی کم سے کم ہر دو مہینے میں میٹنگ ہوگی۔ تاکہ متعلقہ اشیاء کی برآمدات سے متعلق معاملات پر کی گئی سفارشات پر بات چیت کی جاسکے اور ماہرین کو مدعو کیا جاسکے۔

یہ فورم اپنی متعلقہ اشیاءکی پیداوار اور برآمدات سے متعلق بیرونی اور اندرونی صورت حال پر لگاتار گہری نظر رکھے گا اور تازہ ترین واقعات کا جائزہ لیتا رہے گا۔ نیز وہ لازمی پالیسی یا انتظامی اقد امات کرتا رہے گا۔ یہ لوگ پیداوار کرنے والوں، بر آمد کاروں اور متعلقہ اشیاء سے متعلق دیگر فریقوں کے لگاتار رابطے میں رہیں گے۔ ان کی پریشانیاں سنیں گے، ان کے لیے سہولیات مہیا کریں گے اور ان کی مدد اور ان کی پریشانیوں کے حل پیش کریں گے۔ یہ لوگ عالمی سطح پر متعلقہ اشیاء کی مارکیٹ کا لگاتار مطالعہ کریں گے۔ نیز گھریلو کمپنیوں کی پیچیدگیوں، نئے موقعوں اور تازہ ترین حالات کا لگا تار جائزہ لیتے رہیں گے۔

فورم کی سفارشات کو پیداوار سے متعلق کمیٹی ؍ ایپیڈا کی اتھارٹی کو پیش کیا جائے گا۔ یہ فورم ایم آئی ڈی ایچ ، ایکسٹنشن این پی پی او وغیرہ جیسی زراعت کی وزارت اور شہری ہوا بازی کی وزارت کی متعلقہ تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے گا۔ تاکہ زرعی برآمد کاروں میں مزید دلچسپی پیدا کی جاسکے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.