نوٹ بندی کے تین برس بعد اس کے اثرات پر ایک سروے کیا گیا جس میں 32 فیصد لوگوں نے کہا کہ اس سے غیر منظم شعبے میں تمام مزدوروں کی آمدنی ختم ہو گئی، دو فیصد لوگوں نے کہا کہ' اس کی وجہ سے مزدوروں کی ایک بڑی تعداد گاؤں منتقل ہوگئے جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کی آمدنی میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ 33 فیصد لوگوں نے کہا کہ' نوٹ بندی کا سب سے بڑا منفی اثر معاشی مندی کے طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔'
لوکل سرکل نامی ایک سوشل میڈیا کمپنی کے ذریعہ کیے گئے مذکورہ سروے کی رپورٹ جمعہ کے روز جاری کی گئی۔ یہ سروے ملک بھر میں کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ صارفین کتنے لین دین کررہے ہیں اور کیا ان کے لگتا ہے کہ نوٹ بندی سے کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے'۔
سروے میں کہا گیا کہ 'جب نوٹ بندی کے منفی اثرات کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا گیا تو 32 فیصد لوگوں نے کہا کہ نوٹ بندی سے غیر منظم شعبے میں تمام لوگوں کی آمدنی ختم ہو گئی ہے، اور دو فیصد نے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے مزدور دیہاتوں میں واپس آئے اور دیہی آمدنی میں کمی آئی۔ جبکہ 33 فیصد لوگوں نے کہا کہ نوٹ بندی کا سب سے بڑا منفی اثر معاشی سست روی ہے۔ لیکن 28 فیصد لوگ ایسے ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہے۔'
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کا ایک اہم مقصد لین دین میں نقد کے استعمال کو کم کرنا اور لوگوں کو ادائیگی کے لیے ڈیجیٹل ٹرانجکشن کو بڑھاوا دینا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بھارتی معیشت میں نقد کا استعمال کم نہیں ہورہا ہے۔
لوکل سارکل نے کہا کہ جہاں 28 فیصد لوگوں کو لگتا ہے کہ نوٹ بندی کے کوئی منفی نہیں ہے، دوسری جانب پچھلے تین برسوں میں ضبط جعلی کرنسی کی مقدار گذشتہ کے مقابلے کافی زیادہ بڑھ گئی ہے۔
سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین برسوں سے نوٹ بندی کے بعد ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ سب سے مثبت مثبت اثر ہے، اور معاشی مندی اور غیر منظم شعبوں میں آمدنی میں کمی منفی اثرات میں سے ہے۔'
کالے دھن پر پابندی لگام کسنے کے لیے 500 اور ہزار روپے کے نوٹ کو تین برس قبل غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، جس کے عوض نئے 500 اور 2000 روپے کے نوٹ جاری کیے گئے۔