امبالا: عالمی وباء کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیشتر صنعتوں کو معاشی مندی کا سامنا ہے۔ بھلے ہی مرکزی حکومت نے معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے 20 لاکھ کروڑ روپے کے معاشی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ لیکن زمینی سطح پر صنعتوں کی حالت تشویشناک ہے۔ مشینیں تیار کرنے والی ہریانہ میں رانا انجینئرنگ فیکٹری کو بھی معاشی بحران کا سامنا ہے۔ یہ فیکٹری 21 سالوں سے مشینیں بنا رہی ہے۔
فیکٹری کے مالک یشپال رانا نے بتایا کہ' ان کے یہاں گدے بنانے کی مشین بنائی جاتی ہے۔ جس کی قیمت 25 لاکھ سے 1 کروڑ روپے تک کی ہے۔ پورے ہریانہ میں صرف انہیں کے پاس یہ مشین بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی فیکٹری میں انٹرلاکنگ ٹائلز، شٹرنگ پلیٹ، پین مکسر کی مشینیں تیار کی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: کورونا وباء اور آن لائن تعلیم، پبلشنگ انڈسٹری کو کتنا نقصان؟
لاک ڈاؤن سے پہلے اس کا کام ٹھیک چل رہا تھا۔ تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد آرام سے وہ 4 سے 5 لاکھ روپے کمالیتے تھے، لیکن اب مسلسل مانگ اور مزدوری کی کمی کی وجہ سے اس کا کام روزانہ گرتا جارہا ہے۔ یشپال سنگھ رانا نے بتایا کہ مشینیں بنانے کے لیے خام مال ممبئی، دہلی اور پنجاب سے آتا تھا، لیکن اب خام مال 3 گنا زیادہ مہنگا ہوگیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں خام مال نہیں آیا تھا۔
واضح رہے کہ اس فیکٹری میں اتر پردیش، بہار اور اتراکھنڈ کے ملازمین کام کرتے ہیں۔ پہلے ان کے پاس 20 سے 25 ملازم ہوتے تھے، اب لاک ڈاؤن کے بعد ان کے پاس صرف 4-5 کاریگر باقی ہیں۔ اگرچہ وہ کاریگر جو اپنے گھر گئے ہیں وہ آنے کی بات کرتے ہیں، لیکن ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں آپا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مشینوں سے پہلے جو آرڈر دیئے گئے تھے۔ وہ بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے منسوخ ہوگئے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے'۔
یشپال رانا نے کہا کہ' انہیں حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔ انہوں نے حکومت سے قرض کے سود کی شرح معاف کرنے اور لاک ڈاؤن کے دوران بجلی کے بلوں کو معاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاکہ ہمارا کام دوبارہ پٹری پر آسکے۔'
فوڈ پروسیسنگ مشینیں تیار کرنے والے رانا مشین انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ارون کمار نے بتایا کہ' لاک ڈاؤن سے پہلے ان کے یہاں 60 سے 65 ملازمین کام کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد اب ان کے پاس 20-25 ملازم باقی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صورتحال ایسی ہے کہ جو جمع پنجی سے ہی کام چل رہا ہے۔ کسی بھی طرح کی کوئی کمائی نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قرضوں کے سود کی قسطوں کو معاف کیا جائے۔ جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیکٹریاں مکمل طور پر بند ہو گئیں تو ان مہینوں کے بجلی کے بلوں کو معاف کیا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ تاجر واحد ایسی برادری ہے جو کبھی بھی حکومت کے خلاف کھل کر بات نہیں کرسکتی ہے، کیوں کہ اسے ڈر ہے کہ حکومت ٹیڑھی چالوں کو اپنا کر کوئی چھاپہ مار نہ کرے۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے کاریگروں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے فیکٹری مالکان نے ان کی مکمل حمایت کی اور انہیں اپنی تنخواہ دی۔ انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام بہت دشوار ہوگیا ہے۔ ایسی صورتحال میں، یہ ڈر بھی ہے کہ کوئی نوکری باقی نہیں رہے گی'۔