حالیہ کئی برسوں سے بھارت کے دفاعی بجٹ میں مماثلت دیکھی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر مختص کی جانے والی رقومات میں معمولی اضافہ، مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کی شرح فیصد میں کمی، بڑھتے ہوئے مالیاتی اخراجات اور سرمایہ کاری کے لیے مختص کی گئی رقم سے کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئی ہے۔
حالانکہ وزیرِ خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سلامتی حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن دفاعی امور کے لیے مختص کی گئی رقم کو دیکھیں تو اس میں کہیں سے بھی حکومت کی کوئی خاطر خواہ پیش کش نظر نہیں آتی۔
یہاں پر دو چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ایک یہ کہ بھارت دفاعی ضرورتوں پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والا چوتھا ملک ہے اور ایسا ملک جسے فی الحال معاشی سست روی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جو صحت اور تعلیمی شعبے پر مشترکہ طور پر اپنے جی ڈی پی کا محض ایک فیصد خرچ کرتا ہے اور گزشتہ برس ہی ملک نے 1600 کروڑ روپے فی جہاز کی قیمت والے رفائل طیارے خریدے ہیں جس وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔
ہمارا ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ محض 42 سو روپے ماہانہ کی آمدنی پر گزارہ کرتا ہے، بھارت خط افلاس سے نیچے رہنے والی 50 ملین آبادی والا ایک ملک ہے۔
دسمبر 2019کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چھ سال میں 30ملین لوگ( بھارت میں سرکاری طور کھینچے گئے)خطِ افلاس سے نیچے لڑھک کر غریبوں میں شامل ہوگئے ہیں۔اس صورت حال میں ہماری پہلی ترجیح غریبی کے خاتمے کی طرف نہیں ہونی چاہیے؟
دوسری قابل غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا دفاعی بجٹ اس ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات اور مستقبل میں عالمی سطح پر ہماری دفاعی قابلیت کو مضبوط بنانا ہوگا۔
آج کی دنیا میں جنوبی ایشیاء سب سے زیادہ غیر مستحکم خطوں میں شامل ہے اور جہاں بھارت کے مغرب میں ایک دشمن پڑوسی ملک اورشمال میں ایک بڑی طاقت ابھر رہی ہے اور یہ دونوں دشمن مستقبل میں بھی بھارت کے ساتھ اپنی لڑائی جارہی رکھیں گے۔
اگلی دہائی میں جہاں پاکستان کے فوجی طاقتوں کو سنبھالنا آسان ہوگا(حالانکہ اس نے ہمارے سیاسی بیانیوں میں کسی حد تک مسلسل جگہ بنائی ہوئی ہے) تاہم چین ایک سنگین تشویش ہوگی۔250بلین ڈالر کا موجودہ چینی بجٹ بھارت کے دفاعی بجٹ کا چار گنا ہے اور آنے والے برسوں میں یہ تفاوت صرف بڑھنے ہی والی ہے۔ایک یورپی کمیشن کی تحقیق کے مطابق سال 2030 تک بھارت اور چین کے فوجی اخراجات باالترتیب213 اور736 بلین ڈالر تک بڑ ھ سکتے ہیں یعنی دونوں ممالک کے دفاعی بجٹ میں 500 بلین ڈالر کا فرق ہوگا۔
تاہم چین پر امن طریقے سے ماننے والا نہیں ہے اور اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ امریکہ اور چین پہلے ہی تجارت اور ٹیکنالوجی کی جنگ میں پڑ چکے ہیں جس کے نتیجے میں ورلڈ آرڈر میں زبردست تبدیلی آسکتی ہے اور بھارت عالمی مقابلے میں ایک سوئینگ اسٹیٹ بن سکتی ہے۔
البتہ عالمی سطح پر ایک بڑا کردار پانے کیلئے بھارت کو مضبوطی (ہارڈ پاور) کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جس نے حالیہ وقت میں اپنی نرم طاقت (سافٹ پاور) کی وجہ سے چوٹ کھائی ہے۔ اس پر مزید انحصار نہیں کرسکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم ان دو نکات کو کس طرح ملا ئیں گے؟یہ بات اب واضح ہے کہ فوج کو محدود بجٹ پر گزارہ کرنا ہوگا۔پہلی چیز جو آنکھوں کے سامنے آتی ہے، وہ تنخواہ اور پینشن کے اعلیٰ اعداد وشمار ہیں لیکن تنخواہ کو ایک حد سے آگے نہیں کاٹا جا سکتا ہے۔اگر ہم بہترین ٹیلنٹ کو فوج میں بھرتی ہونے کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں تو پھر فوجی ملازمت کو پُرکشش بنانا لازمی ہے۔
امریکی فوج اپنے بجٹ کا تقریباَ 40فیصد حصہ تنخواہوں اور مراعات پر خرچ کرتی ہے اور پینشن کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہے۔قوم کو اپنے سپاہیوں کا خیال رکھنا چاہیئے کہ جو اپنی جان کی بازی لگا کر ملک کی خدمات کو انجام دتیا ہے اس لیے ہماری پینشن مجموعی طور پر دنیا بھر کی فوج کے جیسی ہونی چاہیئے۔
لہٰذا ان مسائل کا حل مسلح فورسز کے مجموعی حجم اور ڈھانچہ پر سخت غور و فکر کرنے سے ہی ہوگی ۔فوج میں چالیس سال کی خدمت انجام دینے کے بعد یہ میری غور کردہ رائے ہے کہ ہماری افرادی قوت کو کم کرنے کی کافی گنجائش ہے۔فوج کی تینوں سروسز کی رسد، تربیت یہاں تک کہ ہوائی دفاع جیسے جنگی افعال میں ایک خاص مقدار کی (ڈیوپلیکیشن) نقل موجود ہے۔یہ خوشی کی بات ہے کہ نئی کمبائینڈ ڈیفنس سروسز (سی ڈی ایس)ان چیزوں میں کمی کرنے پر سوچ رہی ہے۔
اس کے علاوہ فوج کے کئی یونٹوں میں ریسروسٹ ماڈل کو اپنانے کی گنجائش موجود ہےجس سے افرادی قوت میں کافی بچت ہو سکتی ہے۔فضائیہ اور بحریہ کو بھی اپنے 44 اسکواڈرن فائٹر بیڑے یا 200 بحری جہازوالی بحریہ کھڑا کرنے کے پُرجوش منصوبے پر لازمی نظرِ ثانی کرنی چاہیئے۔
فوج کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ یہ اعدادوشمار سیدھے سیدے نا قابلِ حصول ہیں اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسکا سامنا اکیلے بھارت کو نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ بلکہ امریکہ، جس کا بجٹ تقریباَ 750بلین ڈالر ہے ، سنہ 1987 میں صحرائی طوفان کے دوران اپنے 600 جہازوں کے بحری بیڑے کو 300تک اورفضائیہ کی 70فعال جنگی جہازوں سے گھٹ کر محض32تک ہوگیا تھا۔
اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ حجم میں کسی طرح کی کمی ہماری فوج کی کمزوری کی وجہ بن سکتی ہے،لیکن ایسا ضروری نہیں ہے۔بہترین ہتھیاروں سے لیس چھوٹی فوج پُرانے ہتھیاروں والی کسی بڑی فوج سے زیادہ باصلاحیت اور موثر ہوسکتی ہے۔
سنہ 2015 سے چین اپنی مسلح افواج میں تین لاکھ افراد کی کمی کرچکا ہے اور اس سے پیوپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے)کی جنگی تیاری میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔دفاعی بجٹ کا حجم عمومی طور پر فوج میں مایوسی کی سبب ہے۔لیکن یہ سینئر قیادت کو فوج کی تنظیمِ نو اور اصلاحات سنجیدہ ہونے کی طرف بیدار بھی کرتا ہے۔بجٹ کا حجم اور فوج کا حجم مزید وقت کیلئے یکسان نہیں ہو سکتا ۔