عالمی ریٹنگ ایجنسی فیچ نے اندازہ لگایا ہے کہ رواں مالی برس یعنی 2020-21 میں بھارتی معیشت کی ترقی میں 10.5 فیصد کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جی ڈی پی کی شرح ترقی منفی 10.5 فیصد ہوسکتی ہے۔ غور طلب ہے کہ کورونا بحران کی وجہ سے ملک کی جون سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح ترقی منفی 23.9 ہوگئی ہے۔
یہ بھارت کی تاریخ میں سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ مارچ میں عائد سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت میں زبردست گراوٹ آئی۔ معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنے کے بعد اکتوبر سے دسمبر کی تیسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں بہتری آنی چاہیے، لیکن اشارے تو ایسی مل رہی ہے کہ بہتری کی رفتار سست اور ناہموار ہوگی۔'
غور طلب ہے کہ جون کی سہ ماہی میں ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار میں تقریبا 24 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ اس کے پیش نظر ماہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ معیشت کے لیے دوسرا ریلیف پیکیج آنا چاہیے۔ لیکن جب تک کورونا ویکسین مارکیٹ میں نہیں آتی اس وقت تک ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 23.9 فیصد تاریخی کمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی جی ڈی پی میں تقریبا ایک چوتھائی کمی واقع ہوئی ہے۔
پہلی سہ ماہی میں مستحکم قیمتوں پر حقیقی جی ڈی پی 26.90 لاکھ کروڑ روپے رہی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں 35.35 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اس طرح سے اس میں 23.9 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گذشتہ برس اس عرصے کے دوران جی ڈی پی میں 5.2 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔
مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کسی ملک کی حدود میں ایک مخصوص وقت کے اندر پیدا ہونے والے تمام سامان اور خدمات کی کل مالیاتی یا مارکیٹ ویلیو ہے۔ یہ کسی ملک کی گھریلو پیداوار کی ایک جامع پیمائش ہے اور یہ کسی ملک کی معیشت کی صحت کو ظاہر کرتی ہے۔
جی ڈی پی معاشی نمو اور ترقی کا ایک پیمانہ ہے۔ معیشت مضبوط ہونے پر بے روزگاری کم رہتی ہے۔ لوگوں کی تنخواہ بڑھتی ہے۔ کاروباری اپنا کام بڑھانے اور طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔