بے لگام معاشی سُست روی سے نجات پانے کیلئے جس بجٹ کا بے صبری سے انتظار تھا وہ بالآخر مایوسی کا پیغام لیکر پیش ہوا ہے۔ اس میں نصف توقعات بھی پوری نہیں کی گئی ہے۔
حالانکہ اس تاثر کہ حکومت لوگوں کی قوتِ خرید بڑھانے کیلئے ذرائع تلاش کررہی ہے۔جس کے تحت کاروباریوں اور عام لوگوں کو توقع تھی کہ بجٹ میں ان کی قوتِ اخراجات بڑھانے کی کئی خاص ترکیبیں تجویزہوں گی لیکن سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر کرکے آئندہ سال کیلئے طے بھاری ڈِس انویسٹمنٹ کے ذریعہ وسائل جمع کرنے کی غیر معمولی مہم اور بعض خصوصی بنیادوں پر جی ڈی پی کے 0.5فیصد مالی خسارے سے انحراف کی سہولت فراہم کرنے والے ایف آربی ایم کے فرار کے سہارے کے جیسی ہوشیاری کے باوجود بجٹ مالی فروغ کی وجہ بننے میں ناکام رہا ہے۔حکوم کے بیلنس شیٹ کو دیکھا جائے تو حالیہ بجٹ فقط مالی سکڑاو کو ٹال پایا ہے۔
انکم ٹیکس دہندگان کی ایک بڑی توقع یہ تھی کہ انہیں انہی خطوط پر راحت پہنچائی جائے گی کہ جن خطوط پر چند ماہ قبل کاروباری گھرانوں(کارپوریٹس)کو راحت دی گئی تھی۔
بجٹ نے 5-7.5 ،5-10،10-12.5 اور12.5-15لاکھ روپے کی آمدنی والے زمروں کیلئے ٹیکس کی شرح فیصد میں تخفیف کرکے اسے 15، 20 اور 30 فیصد کی بجائے25،20،15 اور10فیصد کردیا ہے لیکن یہ ایک کھلی چھوٹ نہیں ہے بلکہ اسکے لئے کئی شرائط رکھی گئی ہیں۔
انفرادی ٹیکس دہندگان کو خاص طور پر کئی طرح کی چھوٹ اور کٹوتیوں کو ،جن میں مکان کرایہ اور سفر خرچہ وغیرہ جیسی مراعات اور گھر کیلئے لیے گئے قرضہ پر سودسرِ فہرست ہیں، چھوڑ دینے کی صورت میں نئی (ٹیکس)شرحوں کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔مجموعی طلب میں اضافے کے تعلق سے اس(انفرادی ٹیکس دہندگان کو کی گئی پیشکش)کا بہت زیادہ اثر نہیں ہوگا کیونکہ ٹیکس دہندگان یقینا محتاط رہیں گے اورکسی قسم کا انتخاب کرنے سے قبل اپنے پاس بچنے والی آمدنی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں سوچیں گے۔
لہٰذا اصل نتیجہ ایک طویل مدت کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے، تب بھی ٹیکس کی بہت زیادہ بچت نہیں ہوسکتی ہے اگرچہ وزیرِ خزانہ نے اس حوالے سے کئی مثالیں پیش کی ہیں۔اس لئے یہ اقدام معیشت کو کوئی واضح فروغ دینے میں ناکام معلوم ہوتا ہے۔
وزیرِ خزانہ نے بھروسے اور دولت پیداکرنے والوں(یعنی تجارت)اور کاروباریوں کی تعظیم کرنے پر زور دیا ہے۔انکا یہ کہنا ،بازار میں 'بھروسے کے فقدان' سے متعلق گذشتہ کئی مہینوں کے دوران مختلف وجوہات کیلئے بڑھتی رہیں چمہ گوئیوں،ساختی تبدیلیوں سے متعلق نجی کاروبار کے تاثرات، پورا نہ ہونے والی توقعات، معاشی پالیسیوں میں صفائی کے فقدان اور عدمِ استحکام وغیرہ کا براہِ راست ردعمل معلوم ہوتا ہے۔
قابلِ فہم ہے کہ اس سب نے کاروباری اعتماد کو مجروح کیا ہے اور معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔اس ضمن میں ٹھوس اقدامات ٹیکس دہندگان کے ادارہ کا دستوری قانون میں انضمام،بے چہرہ اندازے کی مکالمے تک توسیع اور معاہدے کے قانون کو مظبوط کرنا ہے۔اس سب کے نتائج ، وقت کے ساتھ، مجموعی کاروباری اعتماد اور جذبات کے ذریعہ ہی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
مجوزہ بجٹ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی سمت میں ضعیف اقدامات کرتا ہے۔مثلاَ بلدیاتی ادارے اب انجینئرنگ گریجویٹس کو اب انٹرنشپ کے مواقع کی پیشکش کرینگے۔یہ بات وہی بتاسکتے ہیں کہ اس سے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کتنی مدد ملے گی!
پھر گذشتہ دسمبر میں اعلاان کردہ قومی سطح کے منصوبوں کا کام چلانے والی ایجنسی، نیشنل انفرااسٹرکچر پائپ لائن،بے شمار غیر سرکاری متعلقین کو ملوث کرکے انکا ہنر استعمال کرے گی۔اساتذة، نرسوں، نیم طبی عملہ اور دیکھ بھال کرنے والوں کی غیر ممالک کے معیار کے مطابق قابلیت بڑھانے کیلئے انکی رہنمائی کی جائے گی تاکہ وہ بیرون ِ ملک روزگار کے مواقع پا سکیں۔اس سے بہتر معاشی مواقع کیلئے بیرون ملک ہجرت کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو خوش ہونا چاہیئے۔
اسکے علاوہ حکومت ترقی کی حیاتِ نو کیلئے بنیادی ڈھانچے کی تخلیق پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے۔گذشتہ پانچ سال کے دوران جس سُست رفتار سے سڑکیں اور شاہرائیں بنائی گئی ہیں، اور جس سے نیشنل ہائے وے اتھارٹی آف انڈیا(این ایچ اے آئی)قرضے میں گہرا ڈوب گئی ہے لیکن پھر بھی مطلوبہ یا متوقع ترقی حاصل نہیں ہوئی ہے جو حوصلہ شکن ہے۔
دوسری جانب مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی پروگرام(ایم جی این آر ای جی اے)کا بجٹ 13.4فیصد کم کردیا گیا ہے جبکہ پی ایم -کسان کی مختصی ایک سال پہلے کی ہے۔گزرے مالی سال میں یہ رقم پوری طرح خرچ بھی نہیں کی گئی تھی!موجودہ اخراجات درجہ فہرست ذاتوں اور دیگر کمزور طبقوں کی ترقی کی اسکیم کے تحت باالترتیب 12اور20فیصد کا اضافہ دکھاتے ہیں۔
زراعت، کاشتکاری، روزگار، دیہی ترقی اور نہ جانے کس کس بارے میں بہت کچھ کہا گیا تھا لیکن ریاستوں، جو نہ ادھر کی ہیں نہ ادھر کی،ان کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ سنہ 2014اور سنہ 2019کے درمیان بعض نمایاں حصولیابیاں موجود تھیں لیکن یہ حکومت کی دوسری باری کا دوسرا بجٹ ہے جو واقعی اہمیت رکھتا ہے۔مجموعی طور دیکھا جائے تو ابھی پیش کئے گئے بجٹ سے تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔یہ بات سچ ہے کہ حکومت کے پاس پیسہ ختم ہوگیا ہے لیکن یقیناَ اسکے خیالات اور (مسائل کے) حل ختم نہیں ہوئے ہیں۔
رینو کوہلی نئی دلی میں مقیم ایک مائیکرو اکونومسٹ ہیں۔