حالانکہ کمپنیوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن ان کمپنیوں کے اعلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان کی فروخت متاثر نہیں ہوئی ہے۔
اسمارٹ فون کمپنی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ کووڈ 19 وبا کی وجہ سے لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں اور گھروں پر رہ کر آن لائن کلاسز لے رہے ہیں، جس کی وجہ سے موبائل فون کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ بڑھتی طلب کو پورا کرنے کے لیے مہنگے دام پر فونز درآمد کیے جارہے ہیں۔
ایک اور چینی کمپنی کے ایگزیکٹو نے کہا کہ' ہم حالات پر گہری نظر بنائے ہوئے ہیں، زمینی سطح سے لے کر سوشل میڈیا پر بھی ہم نظر رکھے ہوئے ہیں۔'
خیال رہے کہ حالیہ دنوں لداخ کی وادی گولان میں چینی فوج کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں میں تقریباً 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔ جس کے بعد ملک بھر میں چین کے خلاف غصہ پایا جارہا ہے۔ ٹوئٹر پر 'بائیکاٹ چینا' 'گو چینا گو، گو چینی گو' ٹرینڈ کررہا ہے۔
صنعت تنظیم کنزیومر الیکٹرانک اینڈ اپلائنسز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (سیما) نے کہا کہ' حالیہ واقعات کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دیگر ذرائع سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ اس کا اثر صارفین کے خریداری کے رویے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سیما کے صدر کمل نندی نے بتایا کہ' صارفین کو سوشل میڈیا کے مختلف فورمس سے اس بارے میں پیغامات مل رہے ہیں اور وہ اس پر فیصلہ لے رہے ہیں۔ اس طرح کے احساسات بالآخر صارف کی خریداری کے طریقہ کار کو متاثر کرسکتے ہیں اور ایسا ممکن ہے'۔
انڈیا سیلولر اینڈ الیکٹرانکز ایسوسی ایشن (آئی سی ای اے) کے چیئرمین پنکج مہیندرو نے کہا کہ' یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ بھارت کی سپلائی چین کا ایک بڑا حصہ چین سے جڑ گیا ہے'۔
مہیندرو نے کہا کہ' گذشتہ کچھ برسوں کے دوران خود کفالت بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں مضبوط صلاحیت کی تعمیر پر توجہ دینی ہوگی۔ احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہم بھارت میں پیداوار بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب ہم بھارتی چیمپینز کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔'
انہوں نے امید ظاہر کی کہ سنہ 2025 تک بھارت میں موبائل فون اور دیگر شعبے میں بھارتی کمپیاں مضبوط ہوں گی۔