سنہ 2019 بھارتی معیشت کی شروعات تجارتی جنگ اور عام انتخابات کے ساتھ ہوئی، لیکن سال کے اخر تک معیشت میں مندی برقرار رہنا چونکا نے والا تھا۔
تیل کی قیمتیں مستحکم ہونے کی وجہ سے حکومت نے راحت کی سانس لی۔ اس کے علاوہ تجارت میں بھی توازن برقرار رہا جس نے کرنسی کی زوال کو روک دیا۔ اس برس حکومت نے نئی کمپنیوں کو 15 فیصد ٹیکس کم کٹوٹی اور الیکٹرانک گاڑیوں کی خریداری پر 1.5 لاکھ روپے کے اضافی ٹیکس تخفیف جیسے اقدامات کے ذریعہ معیشت کو رفتار دینے کی کوشش کی۔
بینکنگ کی نظام میں مسائل بنی رہی۔
سنہ 2019 بینکنگ نظام میں مسائل مسلسل جاری رہے، حکومت کی جانب سے سرکاری شعبے کے بنیکوں کی بہتر سرمایہ کاری کے باوجود 2019 کے انتخابات کے بعد حال ہی میں 70000 کروڑ روپے کا سرمایہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
حالانکہ کی سال کی آخر تک پبلک سیکٹر بینکوں ( پی ایس بی) کے غیر منافع بخش اثاثہ جات ( این پی اے) میں معمولی گراوٹ درج کی گئی۔ ان بینکوں میں گروٹ ممکن تھی لیکن بینکوں نے قرض دینے میں احتیاط برتی یا قرض دینے کے لیے تیار نہیں تھی، پی ایس بی کے این پی اے میں 11.2 سے 9.1 فیصد کی معمولی گرواٹ آئی۔ حکومت کو بینکاری کے شعبے کی صحت کے لیے بہت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
غیر بنکاری شعبے ( این بی ایف سی) میں بحران کو معاشی مندی کے لیے یاد کیا جائے گا، این بی ایف قرض کا تقریباً 40 فیصد آٹو موبائل صنعت کے مختلف شعبوں سے جوڑا ہوا ہے، مارچ 2018 کے آخر تک ای بی ایف سی کا قرض 30.85 لاکھ کروڑ تک تھا اور مارچ 2019ء کے آخر میں 32.57 لاکھ کروڑ روپے پہنچ گیا۔
سنہ 2019 دیوالیہ پن کوڈ، دیوالیہ قرار دیے جانے سے متعلق ضابطہ (ترمیمی )آرڈیننس 2016کی مشتہری کو منظوری ایک اہم قدم رہا۔
سنہ 2019 کے دوران ٹیلی کام سیکٹر میں کافی ہلچل دیکھنے کو ملی، حکومت اور کمپنیوں کے درمیان آپسی تنازعات کے سبب جرمانے کی رقم میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔
اگر مندی اس طرح برقرار رہی تو یہ بھارتی معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، مندی کی وجہ سے جی ایس ٹی سے جمع رقومات میں کمی آئی ہے، مرکزی حکومت کو جی ایس ٹی سلیب کو بڑھانے کے لیے ریاست کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے کیوںکہ اس سے مسائل مزید اور بڑھ جائے گی۔
بھارت کو متبادل طریقے کار کے بارے میں سوچنے اور ترقی کو ایک نئے ماڈل کے ساتھ لانے کی ضروت ہے، تاکہ کھپت کے بعد ایندھن کے متبادل چیلنجوں کا سامنا کر سکیں، تاریخی اعتبار سے بھارت کے لیے یہ اہمیت کا حامل ہے کہ ترقی کے لیے ہمیشہ نئے ماڈل اور نئی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
مرکزی حکومت کو مندرجہ ذیل موضوعات پر غور کرنا چاہئے۔
مرکزی و ریاستی حکومت محتاط ہوکر خرچ کرے، مرکزی حکومت ہرماہ تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کے بقدر قرض لے رہی ہے، جبکہ سبھی ریاست تقریباً 50000 کروڑ روپے کے بقدر قرض لے رہی، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اخراجات میں احتیاط برتے۔
حکومتوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر قرضے سرکاری اداروں جیسے بینک، انشورنس کمپنیاں، میوچل فنڈز وغیرہ جیسی عوامی ملکیت کی ہیں۔ کل سرکاری قرضوں میں سے تقریبا 10 فیصد غیر ملکیوں یا افراد کی ملکیت ہے۔ اس لیے اگر کچھ غلط ہوجاتا ہے تو خاص طور پر سب سے زیادہ درمیانی درجے کے افراد متاثر ہوں گے۔
وقت آگیا ہے کہ قرض سے لیے گئے روپے کو سبسڈی پر بڑی مقدار میں خرچ کرنے سے گریز کیا جائے، جس سے پیداواری صلاحیت اور معاشی نمو میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کے لیے سب کچھ کرنا اور ہر چیز مفت فراہم کرنا ناممکن ہے۔
آٹوموبائل صنعت کے لیے الیکٹرانک گاڑیوں کے نظام کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی، جو دیگر بنیادی ڈھانچے پر بھاری اخراجات کی مدد سے ممکن ہوگا۔
حکومت کو ایک یا دو برس کے لیے سبسڈی پر ہونے والے خرچ کو روکنا یا نمایاں طور پر کم کرنا ہوگا، اور بچائے گئے رقومات کا استعمال بہتر طریقے سے کرنا پڑے گا۔ بینکوں کے غیر اعلانیہ تمام اثاثوں کو واپس لانا اور بینکوں کے کام کرنے کے طریقے میں تیزی سے تبدیلی لانا تاکہ معیشت جلد از جلد مستحکم ہو سکے۔ تاہم اس طرح کی چھوٹی سی اصلاحات کے لیے بڑی تعداد میں سیاسی قوت ارادی ضرورت ہوگی'۔
ایک اہم شعبہ جس میں تعاون کی ضرورت ہے وہ ہے ٹیلی کام سیکٹر۔ حکومت کو چاہیے کہ 5 جی جیسی تکنیکی ضرورتوں میں اپنی سرمایہ کاری کو سبسڈی دے۔ اس سے بھارتی کاروبار مسابقتی ہونے کے ساتھ طویل عرصے میں زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔'
موڈرا لون، مائیکرو فنانس لون وغیرہ جیسی اسکیموں پر پیسہ پھینکنے سے گریز کریں اور اس کے بجائے مستقبل کی تکنیکی ضروریات کو پورا کرنے / ان کی تائید پر توجہ دیں۔'
(مضمون نگار: ڈاکٹر ایس اننت، ماہر معاشیات)