ETV Bharat / briefs

وہ کھلاڑی جنہوں نے سیاست کی پِچ پر بھی جوہر دکھائے

کھیل کے میدان پر اپنی کارکردگی سے ملک کا نام روشن کرنے والے کھلاڑیوں نے سیاست کی پچ پر بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور اس بار بھی وہ اپنی قسمت آزمانے کے لیے انتخابی جنگ میں موجود ہیں۔

author img

By

Published : May 12, 2019, 4:33 AM IST

وہ کھلاڑی جنہوں نے سیاست کی پِچ پر بھی جوہر دکھائے

کھیل کے میدان سے سیاست کی پچ پر اترنے والے کھلاڑی اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں امیدوار کے طور پر زور آزمائی میں مصروف ہیں۔

قومی دارالحکومت دہلی سے دو مشہور کھلاڑی اس بار انتخابی میدان میں ہیں-

وہ کھلاڑی جنہوں نے سیاست کی پِچ پر بھی جوہر دکھائے

بھارتیہ جنتا پارٹی نے جہاں مشرقی دہلی لوک سبھا سیٹ سے ارجن ایوارڈ یافتہ اور پدم شری سے سرفراز سابق کرکٹر گوتم گمبھیر کو الیکشن کا بَلا تھمایا وہیں ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس نے اولمپکس میڈلسٹ باکسر وجیندر سنگھ کو جنوبی دہلی سے لوک سبھا کے رنِگ میں اتارا ہے۔

دہلی میں 12 مئی کو انتخابات ہوں گے۔

نشانہ بازی میں اولمپک تمغہ جیتنے والے راجیہ وردھن سنگھ راٹھور اور ڈسکس تھرو کی میڈلسٹ کرشنا پونيہ جے پور دیہی میں آمنے سامنے ہیں۔

لوک سبھا کے انتخابی تاریخ میں جیت کی ’تکڑی‘ بنانے والے کھلاڑیوں میں سابق کرکٹر کیرتی آزاد اور نوجوت سنگھ سدھو کے نام اہم ہیں۔ سات ٹسٹ میچ اور 25 ونڈے میچ کھیل چکے اور 1983 ورلڈ کپ کرکٹ میں فاتح بھارتی ٹیم کے رکن رہے کیرتی آزاد کو سیاست ایک طرح سے وراثت میں ملی ہے۔ ان کے والد بھاگوت جھا آزاد بہار کے سابق وزیر اعلی تھے۔کیرتی آزاد بی جے پی امیدوار کے طور پر 1999، 2009 اور 2014 میں بہار کی دربھنگہ نشست سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔

دہلی اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن (ڈی ڈی سی اے) میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے معاملہ کو لے کر مرکزی وزیر ارون جیٹلی کے خلاف آواز بلند کرنے کا خمیازہ آزاد کو بھگتنا پڑا تھا۔

سنہ 2015 میں بی جے پی نے کیرتی آزاد کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اور وہ فروری 2019 میں آزاد کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ اس برس کے لوک سبھا انتخابات میں مهاگٹھ بندھن میں شامل جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کی شراکت کے تحت ان کو دربھنگہ سے ٹکٹ نہیں مل سکا۔ یہ سیٹ راشٹریہ جنتا دل کے حصے میں چلی گئی۔ کانگریس نے ان کو جھارکھنڈ کی دھنباد لوک سبھا سیٹ سے امیدوار بنایا ہے۔

کرکٹ کے علاوہ ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے ذریعے بھی خاصی مقبولیت حاصل کرنے والے سدھو نے لوک سبھا انتخابات میں جیت کی ’تکڑی‘ لگانے کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات میں بھی جیت کا سکہ جمایا ہے۔

سنہ 2007 میں وہ پنجاب کی امرتسر نشست سے بی جے پی کی جانب سے انتخابات لڑے اور جیت حاصل کی۔ بعد میں 2007 میں ایک کیس میں تین سال کی سزا ہونے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور نچلی عدالت کے فیصلے کا عدالت میں چیلنج کیا، جہاں سے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔

فروری 2007 میں ہی امرتسر سیٹ کے لیے ضمنی انتخابات ہوئے اور سدھو نے یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 2009 کے عام انتخابات میں بھی انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ انہیں اپریل 2016 میں راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا گیا، لیکن چند ماہ بعد 18 جولائی کو انهوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ وہ جنوری 2017 میں کانگریس میں شامل ہو گئے اور امرتسر (اپنے سابق حلقہ) سے رکن اسمبلی بنے۔ فی الحال وہ پنجاب حکومت میں مقامی انتظامیہ، سیاحت اور ثقافتی امور کے وزیر ہیں۔

رنجی ٹرافی میں اترپردیش کی نمائندگی کرنے والے محسن رضا کو بھی اقتدار کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا ہے۔ رضا 2014 میں بی جے پی میں شامل ہوئے اور دوسرے ہی سال پارٹی کے ترجمان بنائے گئے۔ 2017 میں ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی اور وہ وزیر بنے۔ انہیں سائنس، ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور مسلم وقف کی وزارت دی گئی۔


مغربی بنگال کے مشہور کرکٹر لکشمی رتن شکلا نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز ترنمول کانگریس سے کیا۔ شکلا نے 2016 میں ریاست کے ہوڑہ (شمالی) حلقہ سے الیکشن لڑا اور بی جے پی کی امیدوار روپا گنگولی کو شکست دی۔وہ ممتا بنرجی حکومت کے دوسرے دور میں کھیل اور نوجوانوں کے امور کے وزیر ہیں۔


کرکٹ کی دنیا کی مشہور شخصیات میں الیکشن جیتنے والوں میں چیتن چوہان اور محمد اظہر الدین بھی شامل ہیں۔ چوہان نے دو بار 1991 اور 1998 میں امروہہ لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار کے طور پر انتخاب جیتا۔ 47 ٹسٹ میچوں میں کپتانی کر چکے اظہر الدین نے 2009 میں اترپردیش کے مراد آباد سے کانگریس کی جانب سے انتخاب جیتا۔ فی الحال تلنگانہ پردیش کانگریس کے کار گذار صدر ہیں۔ کرکٹر محمد کیف 2009 میں کانگریس کی طرف سے پھول پور کی پچ پر اترے تھے، لیکن وہ کلین بولڈ ہو گئے۔

کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے مهارتھيوں نے بھی سیاست میں بھی اپنی چمک ڈالی ہے۔ سابق اولمپک ہاکی کھلاڑی اسلم شیر خان نے مدھیہ پردیش کے بیتول لوک سبھا سیٹ سے چار بار الیکشن لڑا تھا، جس میں دو میں جیتے اور دو انتخابات ہارے. خان نے 2004 میں بھوپال سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور 2009 میں ساگر سے کانگریس امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا، لیکن دونوں بار انہیں شکست ملی۔

ہاکی کے ہی دوسرے مشہور کھلاڑی رہے دلیپ ٹركي 2012 میں بیجو جنتا دل کی جانب سے راجیہ سبھا رکن منتخب ہوئے. فی الحال وہ اڑیسہ ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے صدر ہیں۔

شوٹر، سابق اولمپین اور پدم شری راجیہ وردھن سنگھ راٹھور سیاست پر اپنا ہدف لگاتے ہوئے 2013 میں بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ سال 2014 میں وہ جے پور دیہی لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور ایم پی منتخب ہوئے۔ وہ مرکزی حکومت میں اطلاعات و نشریات کے ریاستی درجہ کے وزیر بنائے گئے۔9 نومبر 2017 کو انہیں وزارت کھیل کی ذمہ داری سونپی گئی اور دوسرے سال مئی 2018 میں اطلاعات و نشریات کے وزیر کا آزادانہ چارج دیا گیا۔

ڈسکس تھرو کی نامور شخصیت، دہلی دولت مشترکہ کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل اور پدم شری ایوارڈ سے سرفرازکرشنا پونیہ کو سیاست میں کانگریس کا ساتھ راس آیا اور 2018 میں راجستھان اسمبلی انتخابات میں سادل پور (چرو) سے انتکابی میدان میں اتریں ا اور رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔

دلچسپ اتفاق ہے کہ اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں راٹھور جے پور دیہی سیٹ پر پھر نشانہ سادھیں گے اور پونیہ ان کا مقابلہ کریں گی۔ بی جے پی نے راٹھور کو دوسری دفعہ امیدوار بنایا ہے جبکہ کانگریس نے پنیہ کو یہاں سے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ جے پور دیہی سیٹ پر چھ مئی کو الیکشن ہوں گے۔

ایتھلیٹکس میں 1998 کے ایشیائی کھیلوں میں دو طلائی تمغہ جیتنے والی جيوترمئی سكدر نے 2004 میں مغربی بنگال کی کرشنا نگر لوک سبھا سیٹ پر ترنمول کانگریس کا پرچم لے کر دوڑ لگائی اور پارلیمنٹ پہنچی، لیکن 2009 میں وہ پچھڑ گئیں اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سابق قومی سوئمنگ چمپئن نفیسہ علی نے بھی 2004 میں جنوبی کولکتہ سے کانگریس اور 2009 میں لکھنؤ سے سماجوادی پارٹی کی جانب سے الیکشن میں قسمت آزمائی تھی، لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ دونوں ہی بار الیکشن ہار گئیں۔

کھیل کے میدان سے سیاست کی سیڑھیاں پر قدم رکھنے والوں میں سابق فٹ بال کپتان بائی چنگ بھوٹیا کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ فٹ بال میں اپنے زبردست شاٹ ’ سکمی اسنائپر‘ کے نام سے مقبول اور ارجن ایوارڈ اور پدم شری ایوارڈ سے سرفرازبھوٹیا نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ترنمول کانگریس کے ساتھ کیا تھا۔ سنہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں وہ دارجلنگ سیٹ سے ترنمول کانگریس کی جانب سے میدان پر اترے، لیکن جیت کا گول داغنے میں ناکام رہے۔

بھوٹیا نے بعد میں اپنی سیاست کا ہدف سکم پر مرکوز کیا اور نئی پارٹی’همرو سکم پارٹی‘ قائم کیا ۔ ان کی پارٹی نے اس بار کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ریاست کی ایک لوک سبھا اور اسمبلی کی تمام 32 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

انتخابات میں ان کی پارٹی کا مقابلہ حکمران سکم ڈیمو کریٹک فرنٹ (ا یس ڈی ایف ) سے ہے۔ ا ایس ڈی ایف حکومت کے سربراہ پون چاملنگ پانچ بار سکم کے وزیر اعلی رہے ہیں اور اب چھٹی بار پھر اپنی حکومت بنانے کے لیے مصروف عمل نظر آ رہے ہیں۔ سکم میں پہلے مرحلے میں 11 اپریل کو پولنگ ہو چکی ہے۔

کھیل کے میدان سے سیاست کی پچ پر اترنے والے کھلاڑی اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں امیدوار کے طور پر زور آزمائی میں مصروف ہیں۔

قومی دارالحکومت دہلی سے دو مشہور کھلاڑی اس بار انتخابی میدان میں ہیں-

وہ کھلاڑی جنہوں نے سیاست کی پِچ پر بھی جوہر دکھائے

بھارتیہ جنتا پارٹی نے جہاں مشرقی دہلی لوک سبھا سیٹ سے ارجن ایوارڈ یافتہ اور پدم شری سے سرفراز سابق کرکٹر گوتم گمبھیر کو الیکشن کا بَلا تھمایا وہیں ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس نے اولمپکس میڈلسٹ باکسر وجیندر سنگھ کو جنوبی دہلی سے لوک سبھا کے رنِگ میں اتارا ہے۔

دہلی میں 12 مئی کو انتخابات ہوں گے۔

نشانہ بازی میں اولمپک تمغہ جیتنے والے راجیہ وردھن سنگھ راٹھور اور ڈسکس تھرو کی میڈلسٹ کرشنا پونيہ جے پور دیہی میں آمنے سامنے ہیں۔

لوک سبھا کے انتخابی تاریخ میں جیت کی ’تکڑی‘ بنانے والے کھلاڑیوں میں سابق کرکٹر کیرتی آزاد اور نوجوت سنگھ سدھو کے نام اہم ہیں۔ سات ٹسٹ میچ اور 25 ونڈے میچ کھیل چکے اور 1983 ورلڈ کپ کرکٹ میں فاتح بھارتی ٹیم کے رکن رہے کیرتی آزاد کو سیاست ایک طرح سے وراثت میں ملی ہے۔ ان کے والد بھاگوت جھا آزاد بہار کے سابق وزیر اعلی تھے۔کیرتی آزاد بی جے پی امیدوار کے طور پر 1999، 2009 اور 2014 میں بہار کی دربھنگہ نشست سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔

دہلی اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن (ڈی ڈی سی اے) میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے معاملہ کو لے کر مرکزی وزیر ارون جیٹلی کے خلاف آواز بلند کرنے کا خمیازہ آزاد کو بھگتنا پڑا تھا۔

سنہ 2015 میں بی جے پی نے کیرتی آزاد کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اور وہ فروری 2019 میں آزاد کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ اس برس کے لوک سبھا انتخابات میں مهاگٹھ بندھن میں شامل جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کی شراکت کے تحت ان کو دربھنگہ سے ٹکٹ نہیں مل سکا۔ یہ سیٹ راشٹریہ جنتا دل کے حصے میں چلی گئی۔ کانگریس نے ان کو جھارکھنڈ کی دھنباد لوک سبھا سیٹ سے امیدوار بنایا ہے۔

کرکٹ کے علاوہ ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے ذریعے بھی خاصی مقبولیت حاصل کرنے والے سدھو نے لوک سبھا انتخابات میں جیت کی ’تکڑی‘ لگانے کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات میں بھی جیت کا سکہ جمایا ہے۔

سنہ 2007 میں وہ پنجاب کی امرتسر نشست سے بی جے پی کی جانب سے انتخابات لڑے اور جیت حاصل کی۔ بعد میں 2007 میں ایک کیس میں تین سال کی سزا ہونے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور نچلی عدالت کے فیصلے کا عدالت میں چیلنج کیا، جہاں سے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔

فروری 2007 میں ہی امرتسر سیٹ کے لیے ضمنی انتخابات ہوئے اور سدھو نے یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 2009 کے عام انتخابات میں بھی انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ انہیں اپریل 2016 میں راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا گیا، لیکن چند ماہ بعد 18 جولائی کو انهوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ وہ جنوری 2017 میں کانگریس میں شامل ہو گئے اور امرتسر (اپنے سابق حلقہ) سے رکن اسمبلی بنے۔ فی الحال وہ پنجاب حکومت میں مقامی انتظامیہ، سیاحت اور ثقافتی امور کے وزیر ہیں۔

رنجی ٹرافی میں اترپردیش کی نمائندگی کرنے والے محسن رضا کو بھی اقتدار کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا ہے۔ رضا 2014 میں بی جے پی میں شامل ہوئے اور دوسرے ہی سال پارٹی کے ترجمان بنائے گئے۔ 2017 میں ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی اور وہ وزیر بنے۔ انہیں سائنس، ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور مسلم وقف کی وزارت دی گئی۔


مغربی بنگال کے مشہور کرکٹر لکشمی رتن شکلا نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز ترنمول کانگریس سے کیا۔ شکلا نے 2016 میں ریاست کے ہوڑہ (شمالی) حلقہ سے الیکشن لڑا اور بی جے پی کی امیدوار روپا گنگولی کو شکست دی۔وہ ممتا بنرجی حکومت کے دوسرے دور میں کھیل اور نوجوانوں کے امور کے وزیر ہیں۔


کرکٹ کی دنیا کی مشہور شخصیات میں الیکشن جیتنے والوں میں چیتن چوہان اور محمد اظہر الدین بھی شامل ہیں۔ چوہان نے دو بار 1991 اور 1998 میں امروہہ لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار کے طور پر انتخاب جیتا۔ 47 ٹسٹ میچوں میں کپتانی کر چکے اظہر الدین نے 2009 میں اترپردیش کے مراد آباد سے کانگریس کی جانب سے انتخاب جیتا۔ فی الحال تلنگانہ پردیش کانگریس کے کار گذار صدر ہیں۔ کرکٹر محمد کیف 2009 میں کانگریس کی طرف سے پھول پور کی پچ پر اترے تھے، لیکن وہ کلین بولڈ ہو گئے۔

کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے مهارتھيوں نے بھی سیاست میں بھی اپنی چمک ڈالی ہے۔ سابق اولمپک ہاکی کھلاڑی اسلم شیر خان نے مدھیہ پردیش کے بیتول لوک سبھا سیٹ سے چار بار الیکشن لڑا تھا، جس میں دو میں جیتے اور دو انتخابات ہارے. خان نے 2004 میں بھوپال سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور 2009 میں ساگر سے کانگریس امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا، لیکن دونوں بار انہیں شکست ملی۔

ہاکی کے ہی دوسرے مشہور کھلاڑی رہے دلیپ ٹركي 2012 میں بیجو جنتا دل کی جانب سے راجیہ سبھا رکن منتخب ہوئے. فی الحال وہ اڑیسہ ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے صدر ہیں۔

شوٹر، سابق اولمپین اور پدم شری راجیہ وردھن سنگھ راٹھور سیاست پر اپنا ہدف لگاتے ہوئے 2013 میں بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ سال 2014 میں وہ جے پور دیہی لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور ایم پی منتخب ہوئے۔ وہ مرکزی حکومت میں اطلاعات و نشریات کے ریاستی درجہ کے وزیر بنائے گئے۔9 نومبر 2017 کو انہیں وزارت کھیل کی ذمہ داری سونپی گئی اور دوسرے سال مئی 2018 میں اطلاعات و نشریات کے وزیر کا آزادانہ چارج دیا گیا۔

ڈسکس تھرو کی نامور شخصیت، دہلی دولت مشترکہ کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل اور پدم شری ایوارڈ سے سرفرازکرشنا پونیہ کو سیاست میں کانگریس کا ساتھ راس آیا اور 2018 میں راجستھان اسمبلی انتخابات میں سادل پور (چرو) سے انتکابی میدان میں اتریں ا اور رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔

دلچسپ اتفاق ہے کہ اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں راٹھور جے پور دیہی سیٹ پر پھر نشانہ سادھیں گے اور پونیہ ان کا مقابلہ کریں گی۔ بی جے پی نے راٹھور کو دوسری دفعہ امیدوار بنایا ہے جبکہ کانگریس نے پنیہ کو یہاں سے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ جے پور دیہی سیٹ پر چھ مئی کو الیکشن ہوں گے۔

ایتھلیٹکس میں 1998 کے ایشیائی کھیلوں میں دو طلائی تمغہ جیتنے والی جيوترمئی سكدر نے 2004 میں مغربی بنگال کی کرشنا نگر لوک سبھا سیٹ پر ترنمول کانگریس کا پرچم لے کر دوڑ لگائی اور پارلیمنٹ پہنچی، لیکن 2009 میں وہ پچھڑ گئیں اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سابق قومی سوئمنگ چمپئن نفیسہ علی نے بھی 2004 میں جنوبی کولکتہ سے کانگریس اور 2009 میں لکھنؤ سے سماجوادی پارٹی کی جانب سے الیکشن میں قسمت آزمائی تھی، لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ دونوں ہی بار الیکشن ہار گئیں۔

کھیل کے میدان سے سیاست کی سیڑھیاں پر قدم رکھنے والوں میں سابق فٹ بال کپتان بائی چنگ بھوٹیا کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ فٹ بال میں اپنے زبردست شاٹ ’ سکمی اسنائپر‘ کے نام سے مقبول اور ارجن ایوارڈ اور پدم شری ایوارڈ سے سرفرازبھوٹیا نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ترنمول کانگریس کے ساتھ کیا تھا۔ سنہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں وہ دارجلنگ سیٹ سے ترنمول کانگریس کی جانب سے میدان پر اترے، لیکن جیت کا گول داغنے میں ناکام رہے۔

بھوٹیا نے بعد میں اپنی سیاست کا ہدف سکم پر مرکوز کیا اور نئی پارٹی’همرو سکم پارٹی‘ قائم کیا ۔ ان کی پارٹی نے اس بار کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ریاست کی ایک لوک سبھا اور اسمبلی کی تمام 32 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

انتخابات میں ان کی پارٹی کا مقابلہ حکمران سکم ڈیمو کریٹک فرنٹ (ا یس ڈی ایف ) سے ہے۔ ا ایس ڈی ایف حکومت کے سربراہ پون چاملنگ پانچ بار سکم کے وزیر اعلی رہے ہیں اور اب چھٹی بار پھر اپنی حکومت بنانے کے لیے مصروف عمل نظر آ رہے ہیں۔ سکم میں پہلے مرحلے میں 11 اپریل کو پولنگ ہو چکی ہے۔

Intro:Body:

news 




Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.