ماہ رمضان ہر اعتبار سے اور ہر شخص کے لیے کمانے کا مہینہ ہوتا ہے۔ کوئی زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت کے ذریعے نیکیاں کمانے کی فکر میں رہتا ہے تو کوئی مال و اسباب اور اشیائے خوردونوش کو فروخت کر کے کمانے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔
اس بھاگ دوڑ میں مسلمانوں کا ایک گروہ مسلم محلوں سے زیادہ سے زیادہ خیرات و زکواۃ کی حصولیابی میں رات دن ایک کئے رہتا ہے۔ بنارس شہر میں بھی دیگر اضلاع کی طرح رمضان کے آخری عشرے میں مانگنے والوں کی ایک بھیڑ، جس میں خواتین،بچے، بوڑھے، جوان مسلم اکثریتی گلیوں سڑکوں پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اسی سلسلے میں ایک خاندان جو کہ 'بولتا شاہ' کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ لوگ صرف بھیک نہیں مانگتے بلکہ اس خاندان کے لوگ تین نسلوں سے اہل بنارس کو سحری میں بیدار کرنے کا کام کیا کرتے تھے اور رمضان ختم ہونے کے بعد عید کے دن یہ لوگ گھر گھر جاکر شیرنی، سویاں اور عیدی وغیرہ لیا کرتے تھے اور اس کے بعد اپنے گھر جایا کرتے تھے۔
اس خاندان کی تیسری نسل کا ایک شخص ابھی بھی بنارس شہر میں آتا ہے اس کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے اور اس کی سماعت فریب المفقود ہے لیکن آواز اب بھی سریلی ہے اور یہ خاص ترنم کے ساتھ بڑے اچھے اچھے جملے ادا کرتا ہے۔ جیسے اس بولتا شاہ کو جان لو، پہچان لو، بولتا جو کچھ کہے سو مان لو، بولتا ہے قل ہو اللہ احد۔ اور اللہ الصمد وغیرہ وغیرہ۔
اس شخص نے بتایا کہ اس کے دادا لاہور سے بنارس آیا کرتے تھے۔ یہ 1950 سے قبل کا واقعہ ہے۔ وہ بنارس آتے سحری میں لوگوں کو بیدار کر تے اور عید کے دن سویاں اور عیدی کے ساتھ اپنے گھر کو واپس جاتے۔
آج سے بیس سال پہلے جب بنارس شہر میں تعلیم کا رجحان کم تھا تھا تب بچے گلیوں میں گھوما کرتے تھے۔ اس زمانے میں بولتا شاہ کے پیچھے بچوں کی ایک بھیڑ چلا کرتی تھی اور اس میں بولتا شاہ لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے اور بچے محمد رسول اللہ سے اس کا جواب دیتے تھے۔
موجودہ بولتا شاہ سحری میں تو نہیں جگاتے لیکن پھر بھی وہ گھر گھر جاکر اپنا حق وصول کرتے ہیں اور لوگوں کو گزرے ہوئے ایام کی یاد دلاتے ہیں۔