ETV Bharat / briefs

'کسی کی قیمتی جان بچانا انعام و اعزاز سے بڑھ کر ہے'

اس تیز رفتار دور میں مادیت پرستی نے جہاں لوگوں کو خود غرض بنا دیا ہے وہیں لوگ ہر کام میں اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ ایسے میں چند ایسے بھی لوگ ہیں جو غیروں کے لیے ہی اپنی ساری عمر گزارتے ہیں۔

غمگین مجید
author img

By

Published : Jun 15, 2019, 12:32 PM IST

اس کی زندہ مثال ریاست جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے غمگین مجید ہیں۔

پلوامہ کے ناربل گاؤں کے رہنے والے مجید گذشتہ 39 برسوں سے سماجی بہبود کے لیےکام کر رہے ہیں۔

ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ان برسوں میں 165 بار خون کا عطیہ دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں خون کا عطیہ کرنے کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ وہ ایک ہی ماہ میں کئی بار خون کا عطیہ کر دیتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ عطیہ نہیں دیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور عطیہ کے بعد ہی وہ خود کو صحت مند محسوس کرتے ہیں۔

جب بھی خون کے عطیہ کی بات ہوتی ہے تو مجید کا ذکر نہ ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔

مجید ایک سوشل ورکرز کمیٹی کے سرپرست اعلی ہیں اور اس کے بیشتر ممبران بھی اب خون کا عطیہ دینے لگے ہیں۔ مجید کو ان کے اس کام پر انہیں درجنوں اعزازات اور انعامات و اسناد سے نوازا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت، تعلیم، سماجی بہبود سمیت متعدد محکموں کی جانب سے کئی بار ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

تاہم وہ مانتے ہیں کہ انہیں اسناد اور اعزازات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ بہ قول ان کے کسی کی جان بچانا ہی بڑی سند، اور انعام ہے اور یہی بڑا کام ہے۔ ان کے اہل خانہ جو پہلے پہل انہیں ایسا کرنے سے روکتے تھے، اب ان کے اس کام میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

چنانچہ وہ وقت اور دو عطیوں کے دورانیے کو یاد رکھے بغیر ہی اکثر ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ اب حالات یہ ہے کہ ڈاکٹرز ہی انہیں عطیہ دینے سے روکتے ہیں تاکہ ان کی صحت پر کسی طرح کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ مگر مجید کو تو جیسے خون کا عطیہ کرنے کی دھن سوار ہے وہ کچھ بھی پرواہ کئے بغیر عطیہ دے کر ہی راحت کا سانس لیتے ہیں۔

غمگین مجید پورے معاشرے کو انسانیت کا درس دے رہے ہیں۔ یہ کار خیر نہ صرف ہم سب کے لیے ایک سبق بلکہ قابل تقلید عمل ہے اور یہی ہمدردی اور ایک دوسرے کو مدد کرنے کا جذبہ ہمیں انسانیت کے بامِ عروج تک پہنچاتا ہے۔

غمگین مجید

اس کی زندہ مثال ریاست جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے غمگین مجید ہیں۔

پلوامہ کے ناربل گاؤں کے رہنے والے مجید گذشتہ 39 برسوں سے سماجی بہبود کے لیےکام کر رہے ہیں۔

ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ان برسوں میں 165 بار خون کا عطیہ دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں خون کا عطیہ کرنے کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ وہ ایک ہی ماہ میں کئی بار خون کا عطیہ کر دیتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ عطیہ نہیں دیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور عطیہ کے بعد ہی وہ خود کو صحت مند محسوس کرتے ہیں۔

جب بھی خون کے عطیہ کی بات ہوتی ہے تو مجید کا ذکر نہ ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔

مجید ایک سوشل ورکرز کمیٹی کے سرپرست اعلی ہیں اور اس کے بیشتر ممبران بھی اب خون کا عطیہ دینے لگے ہیں۔ مجید کو ان کے اس کام پر انہیں درجنوں اعزازات اور انعامات و اسناد سے نوازا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت، تعلیم، سماجی بہبود سمیت متعدد محکموں کی جانب سے کئی بار ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

تاہم وہ مانتے ہیں کہ انہیں اسناد اور اعزازات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ بہ قول ان کے کسی کی جان بچانا ہی بڑی سند، اور انعام ہے اور یہی بڑا کام ہے۔ ان کے اہل خانہ جو پہلے پہل انہیں ایسا کرنے سے روکتے تھے، اب ان کے اس کام میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

چنانچہ وہ وقت اور دو عطیوں کے دورانیے کو یاد رکھے بغیر ہی اکثر ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ اب حالات یہ ہے کہ ڈاکٹرز ہی انہیں عطیہ دینے سے روکتے ہیں تاکہ ان کی صحت پر کسی طرح کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ مگر مجید کو تو جیسے خون کا عطیہ کرنے کی دھن سوار ہے وہ کچھ بھی پرواہ کئے بغیر عطیہ دے کر ہی راحت کا سانس لیتے ہیں۔

غمگین مجید پورے معاشرے کو انسانیت کا درس دے رہے ہیں۔ یہ کار خیر نہ صرف ہم سب کے لیے ایک سبق بلکہ قابل تقلید عمل ہے اور یہی ہمدردی اور ایک دوسرے کو مدد کرنے کا جذبہ ہمیں انسانیت کے بامِ عروج تک پہنچاتا ہے۔

Intro:شوکت ڈار۔۔
اس تیز رفتار دور میں مادیت پرستی نے جہاں لوگوں کو خود غرض بنا دیا ہے۔ اور لوگ ہر کام اپنے ہی مفاد میں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو غیروں کے لیے ہی اپنی ساری عمر گزارتے ہیں۔
پلوامہ کے غمگین مجید اس کی زندہ مثال ہیں۔


Body:شوکت ڈار۔۔
اس تیز رفتار دور میں مادیت پرستی نے جہاں لوگوں کو خود غرض بنا دیا ہے۔ اور لوگ ہر کام اپنے ہی مفاد میں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو غیروں کے لیے ہی اپنی ساری عمر گزارتے ہیں۔
پلوامہ کے غمگین مجید اس کی زندہ مثال ہیں۔
پلوامہ کے ناربل گاؤں کے رہنے والے غمگین مجید گذشتہ 39 برسوں سے سماجی بہبود کے کام میں کرے کے ہیں۔
ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ان برسوں میں 165 بار خون کا عطیہ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں خون کا عطیہ کی اس قدر عادت ہو گئی ہے کہ انہوان نے کئی بار ایک ہی ماہ میں دو بار عطیہ دیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ عطیہ نہیں دیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور عطیہ کے بعد ہی صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
خب بھی خون کے عطیی کی بات ہوتی ہے تو غمگین مجید کا زکر نہ ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔
غمگین مجید ایک سوشل ورکرز کمیٹی کے بھی سرپرست اعلی ہیں۔ اور اس کے بیشتر ممبران بھی اب خون کا عطیہ دینے لگے ہیں۔
غمگین کو ان کے اس کام پر انہیں درجنوں اعزازات اور انعامات و اسناد سے نوازا گیا ہے۔
جبکہ محکمہ صحت، تعلیم، سماجی بہبود وغیرہ محکمہ جات کی جانب سے کئی بار ان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
تاہم وہ مانتے ہیں کہ انہیں اسناد اور اعزازات سے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ بہ قول انکے کسی کی جان بچانا ہی بڑی سند، اور انعام ہے اور یہی بڑا کام ہے۔ ان کے اہل خانہ خو پہلے پہل انہیں ایسا کرنے سے روکتے تھے، اب اس کے اس کام میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
چنانچہ وہ وقت اور دو عطیوں کے دورانیہ یاد رکھے بغیر ہی اکثر اسپتالوں میں عطیہ کے لئے جاتے ہیں تو اب ڈاکٹر انہیں عطیہ دینے سے روکتے ہیں تاکہ ان کی صحت پر زیادہ عطیہ سے کوئی بڑا اثر نہ پڑے ۔ مگر غمگین اس سب کی پرواہ کئے بغیر عطئی دے کر ہی راحت کا سانس لیتے ہیں۔ غمگین مجید کے اس جذبہ ہمدردی اور انسانیت سبھی کے لئے ایک سیکھ ہے۔ اور یہی انسانیت کی بھی سچی مثال ہے۔


Conclusion:شوکت ڈار۔۔
اس تیز رفتار دور میں مادیت پرستی نے جہاں لوگوں کو خود غرض بنا دیا ہے۔ اور لوگ ہر کام اپنے ہی مفاد میں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو غیروں کے لیے ہی اپنی ساری عمر گزارتے ہیں۔
پلوامہ کے غمگین مجید اس کی زندہ مثال ہیں۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.