کیا ہے پورا معاملہ:
سنہ 2010 میں داہود میونسپل کارپوریشن نے عیدگاہ۔قبرستان ٹرسٹی اور اس کے ذمہ داران کو اطلاع دیے بغیر قبرستان کے بیچ و بیچ ایک راستہ نکالنے کی کوشش کی تھی، اسُ وقت تقریباً 200 قبروں کو شہید کر دیا گیا تھا جس سے مقامی لوگوں میں کافی غم و غصہ تھا۔
اس عیدگاہ۔قبرستان کا مقدمہ گجرات ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔ دو سال قبل مقامی باشندوں نے قبرستان میں ہو رہی خرافات کو روکنے کے لیے چہار دیواری کی تعمیر کردی لیکن انتظامیہ نے اسے منہدم کردیا۔
اس تعلق سے تفصیلات بتاتے ہوئے اس معاملے کے درخواست گزار حاجی احساس خان پٹھان نے کہا کہ داہود میں واقع تاریخی قبرستان چھاپ تالاب قبرستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جس کا رجسٹریشن نمبر بی 81 ہے۔ سنہ 2010 میں قبرستان سے جبراً سڑک نکالنے کے معاملے میں یہاں کے مقامی باشندوں نے گجرات ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جو اب تک زیر التواء ہے۔ لیکن اب ایک بار پھر یہاں سے راستہ نکالنے کے لیے یہاں پیمائش کی جارہی ہے۔ ہفتے کے روز گجرات وقف بورڈ کے کسی بھی رکن کو اطلاع دیے بغیر انتظامیہ نے یہاں پیمائش شروع کردی۔ اس قبرستان کو لےکر ہم نے ضلع کلکٹر کو پوری تفصیلات بتائی لیکن اب تک اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔
یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ عیدگاہ قبرستان تین سو سالہ قدیم تاریخی قبرستان ہے۔ جو سات ایکڑ 23 گُنٹھا میں پھیلا ہوا ہے۔ داہود میں ایک اور قبرستان موجود ہے لیکن وہ سٹی سے بہت دور ہے اسی وجہ سے یہاں کے زیادہ تر لوگ اسی قبرستان میں تدفین کرتے ہیں اور عید کی نماز بھی یہیں ادا کی جاتی ہے۔
اس تعلق سے سماجی کارکن معین قاضی نے کہا کہ ہم ترقیاتی کاموں کی مخالفت نہیں کر رہے اس معاملے میں تو ہم حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن قبرستان کی زمین میں سے راستہ بالکل نہ نکالا جائے کیونکہ آج بھی قبرستان میں تدفین کی جاتی ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز بھی یہاں پڑھی جاتی ہے اس لئے ہماری خواہش ہے کہ قبرستان آباد رہے اور یہاں سے سڑک نہ نکالی جائے۔
وہیں عیدگاہ قبرستان کے ٹرسٹی ڈاکٹر نظام الدین قاضی نے کہا کہ میں نے عیدگاہ قبرستان کی ٹرسٹی ہونے کی حیثیت سے کلکٹر سے درخواست کی کہ کارپوریشن اگر راستہ نکالنا چاہتا ہے تو اس کی صحیح طریقے سے پیمائش کی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا جلد سے جلد حل نکالا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قبرستان کی زمین پر کینال کے قریب راستہ نکالنے کے لئے انتظامیہ نے کنکریٹ بھی بچھا دی ہے ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت جلد اس جگہ سے ایک روڈ ضرور نکل سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے مطالبات پر گجرات ہائی کورٹ کس طرح کا فیصلہ کرتی ہے اور عیدگاہ قبرستان میں روڈ بننے کا کام رُکتا ہے یا نہیں؟