ETV Bharat / briefs

نوابوں کی اولادیں وظیفہ کی محتاج - وارثین

ای ٹی وی بھارت سے بات کر تے ہو ئے نواب ظفر عبداللہ نے بتایا کہ ایک دور وہ بھی تھا جب اس پورے خطے پر ہمارے آباواجداد کی حکومت تھی، لیکن آج حالات اس قدر بدل گئے ہیں کہ ہمارے لئے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

نوابوں کی اولادیں نان شبینہ کی محتاج، متعلقہ تصویر
author img

By

Published : May 2, 2019, 3:30 PM IST

ایک دور تھا جب ریاست اودھ اور اس کے نوابوں کا پورے بھارت میں بول بالا تھا۔ لیکن حالات اس طرح تبدیل ہوئے کہ ان کے وارثین پائی پائی کے محتاج ہوچکے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے یہ جاننے کے لیے اودھ کے نوابوں کی اولادیں آج کس حال میں زندگی بسر کررہی ہیں ان سے ملاقات کی اور اس کے بعد جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ کافی چونکا دینے والی ہیں۔

نوابوں کی اولادیں نان شبینہ کی محتاج، متعلقہ ویڈیو

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران نواب ظفر عبداللہ صاحب نے بتایا کہ ایک دور وہ بھی تھا جب اس پورے خطے پر ہمارے آباواجداد کی حکومت تھی، لیکن آج حالات اس قدر بدل گئے کہ ہمارے لئے پریوار چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وثیقہ ایک رائل فیشن ہے، جو بہو بیگم کے نام سے ملتی ہے۔ بہو بیگم نواب سراج الدولہ کی بیگم اور نواب آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔

وثیقہ دو قسم کا ہوتا ہے۔
پہلا۔ امانتی
دوسرا۔ ضمانتی وثیقہ۔

امانتی وثیقہ وہ ہوتا ہے جو بہو بیگم کے رشتے داروں کو آج تک مل رہا ہے اور ضمانتی وہ ہوتا ہے جو انکے وفادار اور خدام ہوتے تھے، ان کی وارثین کو ملتا ہے۔

امانتیں وثیقہ-

نواب غازی الدین حیدر نے پہلی مرتبہ دو کروڑ روپے اور دوسری مرتبہ ایک کروڑ روپے انگریزی حکومت کو دیا تھا۔ اسی طرح بہو بیگم نے 55 لاکھ روپیہ سونے چاندی کی شکل میں اور دیگر اثاثہ کے طور پر ساتھ ہی گونڈا کا محل انگریزوں کو دیا تھا۔

انگریزی حکومت اس کے بدلے نوابوں کے رشتے داروں کو ماہانہ پنشن کی شکل میں ادا کرتی تھی۔ وہ آج بھی بدستور جاری ہیں، لیکن جو انگریزوں کی حکومت میں سونا چاندی یا اشرفی میں وثیقہ ملتا تھا وہی آج کے دور میں بھارتی روپے کی شکل میں مل رہا ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وثیقہ نسلا بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اگر بیٹا ہے تو اسے دو حصہ اور بیٹی کو ایک حصہ ملتا ہے۔


نواب ظفر عبداللہ صاحب نے بتایا کہ وثیقہ کو بیس برس کے لیے حکومت کو بیچا جاسکتا ہے اور بہت سارے لوگوں نے اپنا وثیقہ بیچا بھی ہے۔

اس کا یہ طریقہ ہے کہ ایک روپے کے بدلے حکومت آپ کو 220 روپے دیتی ہے، لیکن اس کے بعد بیس سال تک آپ کو کوئی پینشن نہیں ملے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے بیس برس کے لیے وثیقہ کا بیچا تھا، انہیں حکومت کی جانب سے آج بھی پینشن نہیں مل رہی ہے۔

وثیقہ کے نام پر کسی کو دو روپے، تین روپے، پانچ روپے، 15 روپےاسی طرح رقم ملتی ہے۔ جس پر ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔

ایک دور تھا جب ریاست اودھ اور اس کے نوابوں کا پورے بھارت میں بول بالا تھا۔ لیکن حالات اس طرح تبدیل ہوئے کہ ان کے وارثین پائی پائی کے محتاج ہوچکے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے یہ جاننے کے لیے اودھ کے نوابوں کی اولادیں آج کس حال میں زندگی بسر کررہی ہیں ان سے ملاقات کی اور اس کے بعد جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ کافی چونکا دینے والی ہیں۔

نوابوں کی اولادیں نان شبینہ کی محتاج، متعلقہ ویڈیو

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران نواب ظفر عبداللہ صاحب نے بتایا کہ ایک دور وہ بھی تھا جب اس پورے خطے پر ہمارے آباواجداد کی حکومت تھی، لیکن آج حالات اس قدر بدل گئے کہ ہمارے لئے پریوار چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وثیقہ ایک رائل فیشن ہے، جو بہو بیگم کے نام سے ملتی ہے۔ بہو بیگم نواب سراج الدولہ کی بیگم اور نواب آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔

وثیقہ دو قسم کا ہوتا ہے۔
پہلا۔ امانتی
دوسرا۔ ضمانتی وثیقہ۔

امانتی وثیقہ وہ ہوتا ہے جو بہو بیگم کے رشتے داروں کو آج تک مل رہا ہے اور ضمانتی وہ ہوتا ہے جو انکے وفادار اور خدام ہوتے تھے، ان کی وارثین کو ملتا ہے۔

امانتیں وثیقہ-

نواب غازی الدین حیدر نے پہلی مرتبہ دو کروڑ روپے اور دوسری مرتبہ ایک کروڑ روپے انگریزی حکومت کو دیا تھا۔ اسی طرح بہو بیگم نے 55 لاکھ روپیہ سونے چاندی کی شکل میں اور دیگر اثاثہ کے طور پر ساتھ ہی گونڈا کا محل انگریزوں کو دیا تھا۔

انگریزی حکومت اس کے بدلے نوابوں کے رشتے داروں کو ماہانہ پنشن کی شکل میں ادا کرتی تھی۔ وہ آج بھی بدستور جاری ہیں، لیکن جو انگریزوں کی حکومت میں سونا چاندی یا اشرفی میں وثیقہ ملتا تھا وہی آج کے دور میں بھارتی روپے کی شکل میں مل رہا ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وثیقہ نسلا بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اگر بیٹا ہے تو اسے دو حصہ اور بیٹی کو ایک حصہ ملتا ہے۔


نواب ظفر عبداللہ صاحب نے بتایا کہ وثیقہ کو بیس برس کے لیے حکومت کو بیچا جاسکتا ہے اور بہت سارے لوگوں نے اپنا وثیقہ بیچا بھی ہے۔

اس کا یہ طریقہ ہے کہ ایک روپے کے بدلے حکومت آپ کو 220 روپے دیتی ہے، لیکن اس کے بعد بیس سال تک آپ کو کوئی پینشن نہیں ملے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے بیس برس کے لیے وثیقہ کا بیچا تھا، انہیں حکومت کی جانب سے آج بھی پینشن نہیں مل رہی ہے۔

وثیقہ کے نام پر کسی کو دو روپے، تین روپے، پانچ روپے، 15 روپےاسی طرح رقم ملتی ہے۔ جس پر ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔

Intro:ایک دور تھا جب لکھنؤ میں اودھ کے نوابوں کی حکومت تھی۔ ایک بڑا خطہ ان کے تابع تھا، لیکن حالات اس طرح تبدیل ہوئے کہ ان کے وارثین پائی پائی روپیہ کے لیے محتاج ہیں۔


Body:ای ٹی وی بھارت نے اودھ کے نوابین آج کس حال میں اپنی زندگی بسر کررہے اس پر خصوصی رپورٹ کی اور جو معاملے سامنے آئے کافی چونکانے والے تھے۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران نواب ظفر عبداللہ صاحب نے بتایا کہ ایک دور وہ بھی تھا جب اس پورے خطے پر ہمارے آباؤاجداد کی حکومت تھی، لیکن آج حالات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ ہمارے لئے پریوار چلانا مشکل ہو گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وثیقہ ایک رائل فیشن ہے، جو بہو بیگم کے نام سے ملتی ہے۔ بہو بیگم نواب سراج الدولہ کی بیگم اور نواب آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔

وثیقہ دو قسم کا ہوتا ہے۔
پہلا۔ امانتی
دوسرا۔ ضمانتی وثیقہ۔

امانتی وثیقہ وہ ہوتا ہے جو بہو بیگم کے رشتہ داروں کو آج تک مل رہا ہے اور ضمانتی وہ ہوتا ہے جو انکے وفادار اور خدام ہوتے تھے، ان کی وارثین کو ملتا ہے۔

امانتیں وثیقہ-

نواب غازی الدین حیدر نے پہلی مرتبہ دو کروڑ روپیہ اور دوسری مرتبہ ایک کروڑ روپیہ انگریزی حکومت کو دیا تھا۔ اسی طرح بہو بیگم نے 55 لاکھ روپیہ سونے چاندی کی شکل میں اور دیگر اثاثہ کے طور پر ساتھ ہی گونڈا کا محل انگریزوں کو دیا تھا۔

انگریزی حکومت اس کے بدلے نوابوں کے رشتہ داروں کو ماہانہ پنشن کی شکل میں ادا کرتی تھی۔ وہ آج بھی بدستور جاری ہیں، لیکن جو انگریزوں کی حکومت میں سونا چاندی یا اشرفی میں وثیقہ ملتا تھا۔

وہی آج کے دور میں بھارتی روپیہ کی شکل میں مل رہا ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وثیقہ نسلا بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔

اگر بیٹا ہے تو اسے دو حصہ اور بیٹی کو ایک حصہ ملتا ہے۔


Conclusion:نواب ظفر عبداللہ صاحب نے بتایا کہ وسیقہ کو بیس سال کے لئے حکومت کو بیچا جاسکتا ہے اور بہت سارے لوگوں نے اپنا وثیقہ بیچہ بھی ہے۔

اس کا یہ طریقہ ہے کہ ایک روپیہ کے بدلے حکومت آپ کو 220 روپیہ دیتی ہے، لیکن اس کے بعد بیس سال تک آپکو کوئی پینشن نہیں ملے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے بیس سالوں کے لئے وثیقہ کا بیچا تھا، انہیں حکومت کی جانب سے آج بھی پینشن نہیں مل رہی۔

وثیقہ کے نام پر کسی کو دو روپیہ، تین روپیہ، پانچ روپیہ، 15 روپیہ اسی طرح رقم ملتی ہے۔ جس پر ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.