الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے 6 معاملوں میں کلین چٹ دیئے جانے کے بعد اشوک لواسا کمیشن کے اجلاس میں شرکت کرنے سے یہ کہتے ہوئے گریز کر رہے ہیں کہ ان کی رائے کو ریکارڈ میں شامل نہیں کیا جارہا ہے۔
لواسا نے 4 مئی کو لکھے ایک خط میں چیف الیکشن کمشین سے کہا کہ اقلیتی رائے کو ریکارڈ میں شامل نہ کرتے ہوئے انہیں اجلاسوں سے دور رہنے کےلیے مجبور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ اجلاسوں میں اقلیتی رائے کو شامل نہ کرنے سے ان کی شرکت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔
خط موصول ہونے کے بعد اروڑہ نے لواسا کے ساتھ اجلاس طلب کرکے بات چیت کی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعظم نریندری مودی کوان کی یکم اپریل کے روز واردھا میں کی گئی”اقلیت‘ اکثریت“ والی اور 9اپریل کے روز لاتور میں پہلی مرتبہ ووٹ کرنے والے نوجوانوں سے بالاکوٹ ائیر اسٹرئیک میں شامل جونوں کو تصویر ذہن میں رکھ کر ووٹ کرنے کی اپیل پر مشتمل تقریروں پر کلین چٹ دینا ایک متفقہ فیصلہ نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق دونوں معاملات میں ایک کمشنر متفق نہیں تھے اور الیکشن کمیشن نے بالآخر فیصلہ 2-1کی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم کے حق میں لیا اور انہیں کلین چٹ دیدی گئی۔
اسی طرح کچھ روز بعد مودی کے خلاف تیسری شکایت کی گئی تھی جس کو متفقہ طور پر مسترد کردیا کیونکہ الیکشن کمیشن کو یہ نہیں لگاکہ راجستھان کے بارمار میں مودی نے پاکستان کو یہ کہتے ہوئے انتباہ دیا کہ ہندوستان کی جوہری طاقت دیوالی کے لئے نہیں ہے۔ اس میں انتخابی عملے کو کہیں پر بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نظر نہیں آئی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مذکورہ الیکشن کمیشن تین لوگوں پر مشتمل ہے کہ جس میں چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا اور الیکشن کمشنر س اشوک لاواس اور سنیل چندرا شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن ایکٹ 1991کے سیکشن 10 کے مطابق تمام معاملات 'حتی الامکان اتفاق رائے سے ہونا چاہیے'۔
اس ایکٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی معاملے میں ”چیف الیکشن کمشنر او ردیگر الیکشن کمشنران کی رائے میں اتفاق نہیں ہوتا ہے تو معاملے کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیاجانا چاہئے“۔