سماجی کارکن ہرش مندر نے کہا کہ ہم ہزاروں افراد کی زندگی کا فیصلہ کر رہے ہیں جو کسی بھی جرم کے بغیر شہریت سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ وہ یہاں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری دلیل بالکل واضح ہے کہ اگر ہم کسی شخص کو غیرملکی قرار دینے کے بعد دوسرا ملک اسے اپنانے سے انکار کردیتا ہے تو ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم اس شخص کے ساتھ ظلم رواں رکھیں گے۔
سماجی کارکن نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر ٹھیک نہیں ہے اور کیونکہ ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے آسام کے شیلٹر ہوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے حالات انتہائی خراب ہے اور میں یہاں مقیم لوگوں سے قریبی رابطہ رکھتا ہوں۔
ہرش نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ چیف جسٹس اپنی بات کہنے کےلیے آزاد ہیں لیکن ہم ان ہزاروں زندگیوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔
واضح رہے کہ جمعرات کو آسام شہریت کے متنازعہ کیس میں سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے خود کو کیس سے الگ ہوجانے کی ہرش مندر کی درخواست کو خارج کردیا تھا۔
مندر نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی سے درخواست کی تھی کہ وہ خود کو اس کیس سے الگ کرلیں۔
سپریم کورٹ نے آسام حراستی مرکز معاملے کی سماعت سے چیف جسٹس کو علیحدہ کرنے سے متعلق عرضی کو مسترد کرتے ہوئے جج پر بھروسہ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے آسام کے حراستی مرکز میں غیر ملکی شہریوں کی حالت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عرضی گزار پر اس وقت ناراضگی ظاہر کی جب انہوں نے چیف جسٹس کو سماعت سے خود کو الگ کرنے کی اپیل کی۔
جسٹس گوگوئی نے اس درخواست کو ٹھكراتے ہوئے کہا کہ ایک عرضی گزار چیف جسٹس کی نیت پر سوال اٹھا رہا ہے۔ جبکہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
یہ معاملہ غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا اور ان کے شیلٹرس میں انسانیت کی بنیادوں پر سہولتیں فراہم کرنے سے متعلق تھا لیکن ججوں کی جانب سے کئے گئے ذاتی تبصروں کی وجہ سے یہ کیس توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔