روی شنکر نے کہا کہ اختلافات دور کرنے میں اتفاق رائے سے مصالحت کی کوشش قوموں کے حق میں ہمیشہ سود مند رہی ہے اور انہیں امید ہے کہ اجودھیا تنازعہ کے فریقین بھی اس ادراک کا عملاً مظاہرہ کریں گے جو دونوں کے لیے وِن وِن پوزیشن کے ساتھ مثبت ثابت ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں اس تمہید کے ساتھ کہ بھگوان رام کا احترام کسی ایک فرقے تک محدود نہیں انہوں نے رام جی کو امام الہند قرار دینے کے شاعر مشرق کے جذبے سے اتفاق کیا اور کہا کہ مذاہب ہمہ جہت زندگی کی راہ دکھاتی ہیں مسدود نہیں کرتیں ۔
انہوں نے کہا کہ امکانات کی طرف سے منھ موڑ کر ہر وقت اندیشوں میں گھرے رہنے سے بات نہیں بنتی۔ مندر بنے گا تو مسجد بھی بنے گی اور ایسا ہوا تو امید کی جانی چاہئے کہ باہمی تعاون اور اشتراک کا مظاہرہ بھی دونوں طرف سے ہوگا۔
قبل ازیں قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین پروفیسر طاہر محمود سے ایک ملاقات میں بھی دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ نے اجودھیا تنازعہ پر عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے نزاع کے سبھی فریقوں میں اتفاق رائے سے مصالحت ہو جانا ملک و قوم کے عین مفاد میں ہوگا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سر براہی والی عدالت عظمی کی ایک پانچ رکنی بنچ نے اجودھیامقدمے کی سماعت کرتے ہوئے 8مارچ کو مصالحت کی کوشش کرنے کیلئے اپنے سبکدوش جج جسٹس خلیفۃ اللہ، مصالحتی قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ سری رام پنچو اور دھرم گرو شری شری روی شنکر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی توسیع شدہ مدت کار 15اگست کو مکمل ہو رہی ہے۔
کمیٹی کی آئندہ میٹنگ لکھنؤ میں ہوگی۔