ای ٹی وی بھارت نے جے این یو طلبا یونین کی نائب صدر ساریکا چودھری سے اس معاملے پر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ 2018 میں وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے خط جاری کیا گیا تھا، اس پر ہی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔
خط میں لکھا ہے کہ ہندی ہماری قومی زبان ہے، جب کہ ہمارے آئین میں یہ صاف لکھا ہے کہ بھارت کی کوئی قومی زبان نہیں ہے۔ سبھی زبان کو برابر کے حقوق اور درجہ دیا گیا ہے، کسی زبان کو لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے۔
ساریکا نے کہا کہ جے این یو میں ہر زبان، ریاست اور طبقے سے طلبا آتے ہیں، ان سبھی کی الگ۔الگ زبان اور دلچسپی ہوتی ہے، ایسے میں کسی ایک زبان کو لازمی کرنا غلط ہے۔
جے این یو طلبا یونین کی وائس پریزڈنٹ نے بتایا کہ پہلے جے این یو میں انٹرنس ٹسٹ ہوتے تھے، اس میں کئی زبانوں کو آپشنل کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ جن کو جس زبان کی جانکاری ہوتی تھی وہ اسی میں وہ اپنا پیپر لکھتا تھا۔
لیکن اب صرف انگریزی زبان میں انٹرنس ٹسٹ جاری کیے گئے تھے۔ اگر ان کی مخالفت کے بعد بھی جے این یو انتطامیہ ہندی کو لازمی قرار دیتا ہے تو اس فیصلے کے خلاف ہم ہائی کورٹ جائیں گے۔
جب کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہندی کی لازمیت سے صاف انکار کر رہاہے کہ ان کی جانب سے ایسا کوئی حکم صادر کیا گیا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے یہ کہا جا رہاہے کہ وہ کسی بھی کورس میں ہندی کو لازمی قرار نہیں دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جے این یو انتظامیہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ 28 جون کی اکیڈمک کاؤنسل کی میٹنگ ہونی ہے، جس میں اس تعلق سے طلبا سمیت فیکلٹی کی رائے لی جائے گی۔