بنگلور کی سیشن عدالت نے دہشت گردی کے الزامات سے ایک مسلم نوجوان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ استغاثہ عدالت میں ملزم کے خلاف اس کے مبینہ اقبالیہ بیان کے علاوہ کوئی دوسرا ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ دوسری طرف جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ جب ایسے بے قصور کو پھنسانے والے پولیس اہلکار کو عدالت میں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا اس وقت ایسے تکلیف دہ واقعات ہوتے رہیں گے۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ کسی بھی شخص کو سرحد پار کرانا جرم نہیں ہے۔ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے ایک ملزم کو سال 2005 میں بنگلہ دیش بارڈر پار کرایا تھا یعنی کہ اس نے ملزم کو بھارت میں داخل ہونے اور بعد میں اسے بھارت سے بنگلہ دیش جانے میں مدد کی تھی۔
بنگلور سیشن عدالت کے جج ڈاکٹر کسانپا نائیک نے ملزم محمد حبیب عرف حبیب میاں ساکن اگرتلہ، تریپورہ کو ایڈوکیٹ محمد طاہر کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرضداشت پر سماعت کے بعد مقدمہ سے بری کردیا۔ ایڈوکیٹ محمد طاہر کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کے دفاع میں مقرر کیا تھا۔
دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے ملزم محمد حبیب کو دیگر ملزم صباح الدین کے مبینہ اقبالیہ بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جو اس نے لکھنؤ میں سال 2008 میں دیا تھا جس میں اس نے کہا کہ تھا کہ سال 2005 میں وہ تریپورہ گیا تھا جہا ں اس کی ملزم محمد حبیب نے بارڈر کراسنگ میں مدد کی تھی جس کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (بنگلور) میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں صباح الدین اور اس کے دیگر ساتھیوں کا نام آیا تھا۔
ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم محمد حبیب کو ایک طویل عرصہ کے بعد 22 /مارچ 2017کو اگرتلہ سے گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی لیکن استغاثہ عدالت میں یہ نہیں بتا سکا کہ ملزم کو اتنی تاخیر سے کیوں گرفتار کیا گیا جبکہ ملزم کو مفرور بھی ڈکلئیر نہیں کیا گیا تھا۔ دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کی توجہ استغاثہ کی جانب سے جمع کئے گئے ثبوت وشواہد کی قانونی حیثیت کی جانب بھی مبذول کراتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے ملزم کو سنی سنائی باتوں یعنی کہ دیگر ملزمین کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا ہے جس کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ملزم محمد حبیب کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرض داشت کی سرکاری وکیل نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ دیگر ملزمین جہادی ذہنیت کے ہیں اور ملزم محمد حبیب نے یہ سب جانتے ہوئے ان کی مدد کی اور انہیں بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے اور فائرنگ انجام دینے کے بعد بنگلہ دیش واپس چلے جانے میں مدد کی لہذا ملزم کو مقدمہ سے ڈسچار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دیگر ملزمین کی طرح ملزم کو بھی عمر قیدکی سزا ہوسکتی ہے۔ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد سیشن عدالت نے ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیا د پر ملزم کو مقدمہ سے بری کردیا اور اسے فوراً جیل سے رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔
واضح رہے کہ بنگلور پولس نے ملزم کو تعزیرات ہند کی دفعات 120-B, 121,121-A,122,123,307,302، آرمس ایکٹ کی دفعات25,27، دھماکہ خیز ماد ہ قانون کی دفعہ6اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کی دفعات 10,13,16,17,18,20کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا اور اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس سے سیشن عدالت نے اسے بری کردیا۔
دہشت گردی کے الزام سے بری ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعےۃ علمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کے بے قصور قرار دئے جانے اور مقدمہ سے بری کئے جانے پر عدالت کے فیصلے کا َخیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جہاں پولیس اہلکار کسی بے قصور کو جیل میں ڈال دیتے ہیں اور پھر لمبی عدالتی کارروائی کے بعد وہ شخص عدالت سے باعزت بری ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے اور اس طرح ایک سازش کے تحت کسی بھی شخص کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ایسے خاطی پولیس والے کو جوسازش کے تحت کے کسی کو گرفتار کرکے اس کی زندگی برباد کرتے ہیں، اس کے خلاف سخت سزا کا التزام ہونا چاہئے اور جب تک عدالت ایسے پولیس اہلکار کے خلاف سخت کارروائی کی اجازت نہیں دیتی اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔