مولانا قاری معین الدین قاسمی کی جنازہ کی نماز ان کے بیٹے قاری اسامہ نے پڑھائی ، کافی تعداد میں لوگوں نے انکے جنازہ میں شرکت کی.
جمعیت علماء بہار کے صدر وممتاز دینی درسگاہ مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ کے مہتمم قاری معین الدین قاسمی اتوار کی دوپہر اس دارفانی سے رحلت فرماگئے ۔
اطلاع کے مطابق 64 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے مسجد فخرالاولیاء کے احاطہ میں ہی انہوں نے آخری سانس لی ہے، دو برس قبل ہی دل کی بیماری کی شکایت ہوئی تھی اس وقت علاج کے بعد وہ صحتیاب ہوکر مسلسل دینی خدمات انجام دینے میں مصروف تھے.
معین الدین قاسمی دینی وعصری خدمات کی وجہ سے ملکی سطح پر نمایاں پہچان رکھتے تھے ، حضرت قاری معین الدین قاسمی جمیعت علماء بہار ارشد مدنی گروپ کی صدارت گزشتہ دس برسوں سے سنبھال رہے تھے ، ان کی صدارت کے دوران بہار میں جمعیت علماء نے نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے کئی مسئلے پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.
جمیعت علماء کو بہار کے کونے کونے تک پھیلایا اور لوگوں کو جوڑا، چونکہ جمعیت علماء ہند کے صدر ارشد مدنی ہو یا پھر مولانا محمود مدنی سبھی کے مدرسہ قاسمیہ اور قاری معین الدین قاسمی سے دیرینہ تعلقات تھے.
مولانا کے والد بزرگوار وپایہ کے عالم دین اور بزرگ صفت حضرت مولانا قاری فخرالدین قاسمی سے تربیت حاصل کرنے بڑے بڑے وقت کے علماء نے مدرسہ قاسمیہ میں رہ کر خدمات انجام دی ہیں.
مولانا ارشد مدنی نے گیا قاسمیہ میں مدرس کی حیثیت سے رہتے ہوئے طالب علموں کو پڑھایا بھی ہے ، قاری معین الدین قاسمی جب دارالعلوم دیوبند تعلیم حاصل کرنے پہنچے تو وہاں بھی مولانا ارشد مدنی اور قاری معین الدین قاسمی کے درمیان استاد شاگرد کا رشتہ رہا ۔
انہوں نے گیا میں دینی تعلیم خاص طور پر قرات کے شعبے میں جو کام کیا ہے اسکی ستائش ہر سطح پر ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہیگی ، وہ خود بہترین حافظ وقاری تھے ، مدرسہ قاسمیہ احاطہ میں واقع عظیم الشان مسجد کی امامت وخطابت کے ساتھ رمضان المبارک میں ستائیس شب میں تراویح خود ہی مولانا پڑھاتے تھے.
گزشتہ دو برس قبل دوران تراویح ہارٹ اٹیک آنے کی وجہ سے مولانا کے صاحبزادہ حافظ وقاری اسامہ تراویح پڑھانے لگے تھے ، اس مرتبہ بھی کورونا کی گائڈ لائن پر عمل درآمد کرتے ہوئے تراویح کی نماز قاری اسامہ کی امامت میں ادا کی جارہی ہے ، قاری معین الدین قاسمی خود تراویح کی نماز میں ہوتے تھے.
بتایا جارہا ہے کہ گزشتہ رات قاری معین الدین قاسمی نے تراویح کی نماز پڑھنے کے ساتھ ہی تہجد کی نماز بھی باجماعت ادا کی ہے ، اس کے بعد وہ صبح میں آرام فرمانے لگے، گیارہ بجے دن میں وہ اٹھے اور وضو کے لیے نکلے تبھی وہ گرے اور روح پرواز کرگئی ۔گھر والے اور مدرسہ کے افراد حضرت کو ہسپتال لے جاتے اس سے قبل ہی انتقال کرگئے تھے ۔
پسماندگان میں چھ بیٹیاں ہیں جن میں چار کی شادی ہوگئی ہے جبکہ دو بیٹی اور ایک بیٹا حافظ وقاری اسامہ کی شادی ہونی باقی ہے ۔اسامہ ابھی دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم ہیں ۔
واضح رہے کہ ایک بڑا اور معتبر ادارہ مدرسہ قاسمیہ کو سنہ 1989 سے اب تک مہتمم کے طور پر پوری جوابدہی کے ساتھ انہوں نے چلایا اور اس کی شاخوں کو مزید پھیلا یا ، سنہ 1988 میں جب حضرت مولانا قاری فخرالدین قاسمی علیہ الرحمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت مدرسہ قاسمیہ کی کل 77 شاخیں گیا اور بہار میں تھیں جبکہ حضرت قاری معین قاسمی علیہ الرحمہ کے دوران مدرسہ قاسمیہ کی 104 شاخیں ہوگئی ہیں ، ان کے انتقال پرملال پر گیا کے علماء، ائمہ، حفاظ سمیت عام وخاص نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے ، قاری معین الدین قاسمی کا گیا کی بڑی شخصیات میں شمار ہوتا ہے.
قاری معین الدین قاسمی کے کردار و عمل سے سبھی متاثر ہوجاتے ، سنہ 2018 میں بھارت سرکار کی طرف سے حج کے لیے سو مہمانوں میں ان کا نام سرفہرست تھا اور وہ خصوصی مہمان کے طور پر حج کے لیے روانہ ہوئے تھے جہاں سعودی حکومت نے خانہ کعبہ کے غلاف کا ٹکڑا اور پتھر کا ٹکڑا بطور تحفہ پیش کیا تھا.