مالدہ ضلع بھارت کے پسماندہ ترین اضلاع میں شامل ہے۔ یہاں کے لاکھوں افراد کیرالہ، دہلی، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور پنجاب جیسی ریاستوں میں رکشہ پولر، مزدوری، ڈارئیونگ اور گھروں میں ملازمت جیسے کام کرکے اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔
بھارتی حکومت کے وزارت خزانہ کے اکانامک سروے 2016/17 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ مالدہ ضلع کے لوگ نقل مکانی کرکے دوسری ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔ 23اپریل کو مالدہ کی دونوں سیٹ مالدہ جنوب اور مالدہ شمال میں پولنگ ہونی ہے۔
لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران تارکین وطن ورکروں کے مسائل کے ایشو غائب ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں میں مایوسی ہے۔ دیہی علاقوں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ انتخابات جو بھی جیتے مگر ان کے مقدر میں دوسری ریاستوں میں کام کی تلاش میں دربدری لکھا ہوا ہے اور اس میں تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔
مالدہ ضلع ایک زمانے میں بنگال کا مرکز تھا، گور سلطنت کا دارالحکومت رہ چکا ہے مگر اب یہاں حالات بالکل بدل چکے ہیں۔
سنہ 2014 میں ریاستی حکومت کے اسٹڈی رپورٹ کے مطابق ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں مالدہ ضلع سب سے نیچے پائدان پر تھا۔ زراعت مالدہ ضلع کی اصل معیشت ہے، چاول، جو اور آم اہم فصلیں ہیں۔ تاہم یہاں اب بھی زمینداری کا دور دورہ ہے، بے زمین اور بے گھر افراد کی تعداد اکثریت میں ہے۔
مالدہ ضلع کے شہری علاقوں میں فیکٹری اور کارخانے کے فقدان کی وجہ سے بڑی تعداد میں یہاں کے لوگ دوسری ریاستیں نقل مکان پر مجبور ہیں۔
راجستھان میں انتہاء پسندی کے شکار افرازالاسلام کے گاؤں جو کالیا چک سے محض چند کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے میں ہر ایک گھر کا ایک رکن دوسری ریاستوں میں مزدوری کرتا ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک یا دو بیگھا زمین ہے جو ناکافی ہے۔
پرائیوٹ اسکول میں پڑھانے والے ماسٹر محمد اختر نے بتایا کہ یہاں رہنے والے کو کام نہیں ملتا ہے۔ اگر ایک دن کام مل گیا تو پانچ دن گھر بیٹھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ ریاستی حکومت نے لڑکیوں کے تعلیم کیلئے کئی فلاحی اسکیمیں شروع کررکھی ہیں اس کی وجہ سے لڑکیوں میں لڑکے کے مقابلے تعلیم کی شرح بہتر ہے مگر ایک سماجی پریشانی یہ درپیش ہوگئی ہے۔
چوں کہ گھر میں غربت کی وجہ سے لڑکے کم عمر میں دوسری ریاستیں چلے جاتے ہیں اس کی وجہ سے ان میں تعلیم نہیں ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادی پھر کم تعلیم یافتہ لڑکوں سے کرا دی جاتی ہے۔
ماسٹر اختر کہتے ہیں بنگال حکومت نے مالدہ کے ورکروں کی فلاح بہبود اور ان کے خاندان کی مدد کیلئے کوئی اسکیم شروع نہیں کی ہے۔جنوبی ہند کی ریاستوں کے علاوہ گجرات، راجستھان، دہلی اور پنجاب میں تارکین وطن مزدوروں کی تعداد بڑے پیمانے پر ہیں مگر زبان کے فرق کی وجہ سے بنگالی ورکروں کو تعصب کا زیادہ سامناکرنا پڑتا ہے۔
جولائی 2017 دہلی میں ہاؤسنگ کمپلیکس میں مالدہ کے رہنے والے ایک گھریلو ملازم کے قتل کا معاملا سامنے آیا تھا۔اس کے چند مہینے بعد راجستھان کے راجسمند ضلع میں مالدہ کے رہنے والے تعمیراتی ورکر افرازل خان کو شمبھولال نامی ایک انتہاء پسند نے قتل کرکے لائیو ویڈیو فیس بک اور دیگر سماجی ویب سائٹ پر لوڈ کردیا تھا۔اس واقعے کے ایک سال بعد بھی گاؤں والے صدمے میں ہیں۔
افرازل خان کی بیوہ گل بہار بی بی نے بتایا کہ چوں کہ یہاں کوئی کام نہیں ہے اس لیے یہاں کے لوگ باہر جاتے ہیں۔افرازل خان کی موت کے بعد ترنمول کانگریس حکومت نے تین لاکھ روپے کا معاوضہ، بیوہ کو 750روپے پنشن اور بیٹی بلاک میں ملازمت دی گئی تھی۔
23فروری کو اترپردیش کے بدوہی میں کارپیٹ فیکٹری میں دھماکہ ہونے کی وجہ سے مالدہ سے رہنے والے 9ورکروں کی موت ہوگئی تھی۔اس کی خبر ملتے ہی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا اور مالدہ میں ایک تعزیتی میٹنگ بھی رکھی گئی تھی۔
حکمراں ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہونے والے ورکروں کی موت پر یقینا بیان بازی کی ہے اور کچھ مالی مدد کی ہے مگر مالدہ کے وررکروں کے مسائل کے مستقل حل کی نہ ریاستی حکومت نے اورنہ ہی مرکزی حکومت نے کوئی قدم اٹھایا ہے۔
مالدہ 1980 سے ہی کانگریس کا گڑھ رہا ہے۔یہاں کی دونوں سیٹ پر 2014 میں کانگریس نے جیت حاصل کی تھی، تاہم کانگریس کے مسلم ووٹ پر قبضہ کرنے کیلئے ترنمول کانگریس نے بڑے پیمانے پر کوشش کی ہے۔
مالدہ کے رہنے والے ورکروں میں 90فیصد مسلم ورکرس ہیں۔بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہونے والے ورکروں پر حملے کے بعد ترنمول کانگریس کی پہل سے ترنمول کانگریس کو امید ہے کہ اس کا فائدہ اس کو پہنچے گا۔
ممتا بنرجی نے مالدہ ضلع میں دو ریلیاں کی ہیں، اپنے تقریر میں نقل مکانی کرنے والے ورکروں کے مسائل پر وزیرا علیٰ نے بات تو نہیں کی تاہم افراز ال خان کے قتل کا معاملہ ضرور اٹھایا۔
بی جے پی اس معاملے کو بھی 'ہندو مسلم' سیاست کے تناظر میں دیکھتی ہے، بی جے پی کے ضلع سنجیت مشرا نے کہا کہ ترنمول کانگریس نے افرازال خان کی لاش کا سیاسی استعمال کیا ہے۔یہ اس لیے مرنے والا مسلمان ہے اگر ہندو کی موت ہوجاتی تو ممتا حکومت کا یہ رویہ نہیں ہوتا۔
مالدہ شمال سے کانگریس کے امیدوار عیسیٰ خان چودھری جو ترنمول کانگریس کے امیدوار موسم نور کے ماموزاد بھائی ہیں نے کہا کہ ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔مالدہ میں روزگار فراہم کی ضرورت ہے۔مگر ممتا حکومت اس پرتوجہ دینے کے بجائے میٹنگ اور ریلیاں کرتی ہیں۔
نقل مکانی کرنے والے ورکروں کے خلاف تشدد کے واقعات سے مالدہ ضلع میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔مگر روزگار کے متبادل نہیں ہونے کی وجہ سے خوف کے باوجود یہاں کے ورکر دوسری ریاستوں میں جانیں پر مجبور ہیں۔
افرازل خان کے گاؤں کے رہنے والے ایک ورکر نے بتایا کہ افرازل کے قتل کے بعد راجستھان میں بنگالی ورکروں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔مگر مالدہ یا اس کے اطراف میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں اس لیے ہمیں جانا پڑتا ہے۔