محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'اس کارروائی سے پہلے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پلوامہ حملے جیسا واقعہ رونما ہونے کا امکان ہے جس کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف نہ صرف سفارتی دباؤ بڑھایا جائے گا بلکہ فوجی کارروائی کو جواز بھی فراہم کیا جائے گا'۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ 'اس مصدقہ اطلاع ملنے کے بعد پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ نہ صرف بین الاقوامی برادری بلکہ پاکستانی عوام کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی 16 سے 20 اپریل کے دوران کی جا سکتی ہے۔'
'ان مصدقہ اطلاعات کے مد نظر دفتر خارجہ نے دو دن پہلے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کے سفارت کاروں کو مدعو کیا اور انھیں اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی اس کا نوٹس لے'۔
انھوں نے مزید کہا کہ' 26 فروری کو پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت پر دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ 'تمام ذمہ دار ممالک اس بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر خاموش رہے'۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ 'پاکستان کل بھی امن پسند تھا اور آج بھی امن پسند ہے تاہم کسی قسم کے تشدد اور جارحیت کا جواب دینے کا حق بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ رکھتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اس بات کا قائل ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔'