آسام میں شہریت سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے آسام سنمیلیٹ سَنگھ نامی تنظیم کے ذریعہ دائر کردہ اس عرضی کو خارج کردیا جس میں اپیل کی گئی تھی کہ آسام اکورڈ کو چیلنج کرنے والے مقدمہ کے لیے پانچ رکنی آئینی بنچ تشکیل دے کر اس کی سماعت جلد از جلد کی جائے اور اس کو این آر سی کے کام مکمل ہونے سے پہلے کرلیا جائے۔
مگر چیف جسٹس کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ اس مقدمہ کے لیے جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے اس سلسلہ میں کسی اپیل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 1985 میں ہوئے آسام اکورڈ کے مطابق آسام میں شہریت کے لیے 25، مارچ 1981 کو بنیاد مانا گیا ہے یعنی اس تاریخ سے پہلے یہاں آکر بس جانے والوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے اور اس کے بعد آنے والوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے،اور ابھی این آر سی کا کام آسام ا کورڈ کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔
مگر آسام پبلک ورک اور آسام سنمیلیٹ سنگھ نامی تنظیم نے سپریم کورٹ میں 2009 اور 2012 میں مقدمہ دائر کر کے آسام اکورڈ کو چیلنج کرتے ہوئے آسام میں شہریت کے لئے 1951 کے این آر سی کو بنیاد بنانے کی اپیل کی ہوئی ہے۔اگر ان تنظیموں کی بات مان لی جائے تو لاکھوں لوگوں کی شہریت خطرہ میں پڑ جائے گی۔