بغیر ڈوپٹہ اوڑھے کسی خاتون کو امام باڑہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
بڑا امام باڑہ دیکھنا ہے تو خواتین کےلیے یہ ضروری ہے
ریاست اترپردیش کے لکھنؤ شہر میں اب بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ اور بھول بھلیاں میں داخل ہونے سے پہلے لڑکیوں اور خواتین کو سر پر دوپٹہ اوڑھنا ضروری ہوگیا۔
بڑا امام باڑہ دیکھنا ہے تو خواتین کےلیے یہ ضروری ہے
بغیر ڈوپٹہ اوڑھے کسی خاتون کو امام باڑہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
Intro:نوابی شہر لکھنؤ میں اب بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، بھول بھلیاں میں جانے کے پہلے لڑکیوں اور خواتین کو سر پر دوپٹہ اوڑھ کر جانا ضروری ہو گیا ہے۔
ایسا نہ کرنے پر چھوٹی بچی ہو یا عمر دراز خاتون سبھی کو امام باڑہ کے اندر داخل ہونا کی صاف ممانیت ہو گئی ہے۔
Body:لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتوں کی جھلکیاں دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور ان کا لپس اٹھاتے ہیں لیکن اب نہیں فرمان کے مطابق تمام خواتین سیاحوں کو حافظ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
معلوم رہے کہ انتظامیہ کمیٹی کا صاف کہنا ہے کہ امام باڑہ محض سیر و تفریح کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عبادت گاہ ہے، جس کا احترام سب پر لازم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کی ممانیت سال 2015 میں کردی گئی تھی لیکن تب اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا تھا، لیکن اب اس پر عمل درآمد کروایا جا رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بنارس سے آئی ہوئی سیاح ریا نے بتایا کہ ہمیں اس قانون سے کوئی اعتراض نہیں، لیکن بہتر ہوتا کہ انتظامیہ کمیٹی ہمیں اس بات کی آزادی دیتی کہ ہم کیا پہنیں اور کیا نہیں پہنے؟
انہوں نے کہا کہ ہم چاہے مندر جائیں، مسجد جائیں یا گرودوارہ جائے سبھی جگہ کی تعظیم کرتے ہیں، لیکن زبردستی کوئی کام کروانا مناسب نہیں۔
Conclusion: دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے خواتین نوجوان لڑکیوں کی اپنی الگ الگ رائے ہے۔ انتظامیہ کمیٹی فلحال عورتوں کو جن کے پاس دوپٹے، شال وغیرہ نہیں ہے، انہیں مفت میں دینے کا کام کر رہی ہے۔
ایسا نہ کرنے پر چھوٹی بچی ہو یا عمر دراز خاتون سبھی کو امام باڑہ کے اندر داخل ہونا کی صاف ممانیت ہو گئی ہے۔
Body:لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتوں کی جھلکیاں دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور ان کا لپس اٹھاتے ہیں لیکن اب نہیں فرمان کے مطابق تمام خواتین سیاحوں کو حافظ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
معلوم رہے کہ انتظامیہ کمیٹی کا صاف کہنا ہے کہ امام باڑہ محض سیر و تفریح کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عبادت گاہ ہے، جس کا احترام سب پر لازم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کی ممانیت سال 2015 میں کردی گئی تھی لیکن تب اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا تھا، لیکن اب اس پر عمل درآمد کروایا جا رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بنارس سے آئی ہوئی سیاح ریا نے بتایا کہ ہمیں اس قانون سے کوئی اعتراض نہیں، لیکن بہتر ہوتا کہ انتظامیہ کمیٹی ہمیں اس بات کی آزادی دیتی کہ ہم کیا پہنیں اور کیا نہیں پہنے؟
انہوں نے کہا کہ ہم چاہے مندر جائیں، مسجد جائیں یا گرودوارہ جائے سبھی جگہ کی تعظیم کرتے ہیں، لیکن زبردستی کوئی کام کروانا مناسب نہیں۔
Conclusion: دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے خواتین نوجوان لڑکیوں کی اپنی الگ الگ رائے ہے۔ انتظامیہ کمیٹی فلحال عورتوں کو جن کے پاس دوپٹے، شال وغیرہ نہیں ہے، انہیں مفت میں دینے کا کام کر رہی ہے۔