دور قدیم میں استعمال ہونے والی شادی کے موقع پر دولہے کی شیروانی کے ساتھ سواری پر بھی خاص دھیان دیا جاتا ہے کیونکہ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ بارات کی شان گاڑی پر منحصر ہوتی ہے۔
دولہا جتنی اچھی گاڑی میں بارات لے جائے اتنا ہی اس کا رتبہ بڑھتا ہے، آج کل باراتیں قیمتی گاڑیوں میں آتی ہیں، لیکن آج سے 20 برس قبل بارات لے جانے کے لیے خاص کاریں مختص ہوا کرتی تھیں جو صرف بارات کے لیے ہی استعمال ہوتی تھیں۔
شہر حیدرآباد کی شادیوں میں کبھی بہت زیادہ مانگ میں رہنے والی گن فاؤنڈری کے پاس کھڑی ان پرانی کاروں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہے، کہ کبھی یہ گاڑیاں حد درجہ مصروف ہوا کرتی تھیں۔
کیونکہ یہ کاریں بارات کی لیے ہی خاص طور پر ڈیزائن کی گئی تھیں، ان لال رنگ کی کاروں کی چھت نہیں ہوا کرتی ہے اور انہیں دلکش انداز میں ایسا سجایا جاتا کہ دولہے کی بارات اور دلہن کی رخصتی کی بہترین تصاویر سامنے آئے، جس کی بناء پر ان کاروں نے عوام میں بے حد مقبولیت حاصل کرلی تھی۔
ان مخصوص کاروں کو کئی ماہ قبل ہی بُک کرانا پڑتا تھا لیکن زمانے کی تیز رفتار ترقی نے ان کاوروں کی رفتار کم کردی۔
کبھی روزانہ کاروبار کرنے والی یہ گاڑیاں آج اپنے مالکوں پر بوجھ بن چکی ہیں۔ اس کاروبار میں اپنی عمر گزارنے والے افراد کسی اور کام سے واقف نہیں، جس کی وجہ سے وہ اسی کے ذریعے اپنے خاندان کی کفالت پر مجبور ہیں۔
کبھی مہینہ بھر مصروف رہنے والی یہ گاڑیاں آج مہینے میں بمشکل دو یا تین باراتوں میں جاتی ہیں لیکن اس سے اب اتنا منافع حاصل بھی نہیں ہوتا۔
کار مالکان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاروبار اب نفع بخش نہیں رہا اور نئے ماڈل کی گاڑیوں نے ان کی مانگ کم کردی ہے جس کی وجہ سے انہیں اکثر فاقوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔