سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں، فائرنگ اور شیلنگ سے جانے کتنے گھر اجڑ جکے ہیں اور بے شمار معزور ہو کر رہ گئے ہیں۔ 17اکتوبر 2017کی شام کو بھی پونچھ کے بالاکوٹ سیکٹر کے سندوٹ بسونی علاقے میں بھی فائرنگ اور شیلنگ ہوئی۔
فائرنگ کے دوران ایک مارٹار شیل محمد نصیب کے گھر کے پاس گرا جس میں نصیب کے تین بچے بری طرح زخمی ہو ئے۔ ان کی بیٹی طاہرہ نصیب بھی اس کی زد میں آئیں اور 10ویں جماعت کی طالبہ طاہرہ کا ایک پاوں بیکار ہو گیا۔
طاہرہ کا علاج سرینگر کے ایک ہسپتال میں چل رہا ہے۔ اب تک ان کی ٹانگ کے 9 آپریشن ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک وہ بستر پر ہیں۔
طاہرہ آج بھی مجبور ہے کیونکہ تقریبا 14لاکھ رروپے خرچ کرنے پر بھی وہ ابھی تک چل پھر نہیں سکتی ہے۔ وہ گزشتہ دو برسوں سے ایک بیڈ پر پڑی ہوئی ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی بھی امید نہیں ملی ہے جس پر انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
فوج کے اعلی افسران ،فوجی ڈاکٹر ہفتے میں ایک بار اس کی مرہم پٹی کرتے ہیں۔
طاہرہ نے پرنم آنکھوں سے بتایا کہ انھیں یہ درد سرحد پر ہونے والی فائرنگ نے دیا ہے اور ان کے والدین ان کی صحتیابی کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہیں۔
تمام کوششوں کے باوجود ابھی بھی وہ چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کر کے ایک ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں ان کی کسی نے مدد نہیں کی اور حکومت سے انھیں کوئی امداد نہیں ملی ہے۔
سرحد پر گولہ بار ی کی وجہ سے طاہرہ کی چہکتی زندگی میں اب سناٹا ہے۔ ان کے والدین پیسے ادھا لےکر ان کا علاج کروا رہے ہیں۔ لیکن مالی مشکلات کے سبب وہ مقروض ہوچکے ہیں۔ اس مشکل وقت میں بھی طاہرہ کے تمام خواب زندہ اور ان کا حوصلہ بلند ہے۔ اگر حکومتی ادارے ان کی مدد کو آئیں تو طاہرہ کے خواب بھی شرمند تعبیر ہوسکتے ہیں۔
طاہرہ نے مزید کہا کہ ملک کے سیاستداں بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کے نعرے دیتے ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر تمام کے تمام کھو کھلے نظر آتے ہیں۔
2017سے لیکر اس وقت تک کسی بھی سیاستداں نے میری جانب دیکھا تک نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ ہم14لاکھ کے قریب پیسے خرچ کر چکے ہیں لیکن ابھی بھی میری بیٹی چلنے کے قابل نہیں ہوئی ہے اور بیڈ پر پڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ہماری بچی کا کسی اچھے ہسپتال میں علاج کروایا جائے تاکہ وہ جلدی سے جلدی چلنے کے قابل ہو جائے اور اپنی پڑھائی جاری رکھے۔