صفیہ آٹو چلاکر اپنے گھریلو اخراجات پورے کرتی ہیں۔ جس محنت اور لگن سے وہ اپنے کام کوانجام دے رہی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں۔
وقت اور حالات انسان کو سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بارہ بنکی کے روشن گڑہی کی رہنے والی صفیہ پر جب بُرا وقت آن پڑا تو وہ آٹو ڈرائیور بن گئیں۔ صفیہ کے والد صغیر احمد پر تین برس قبل فالج کا حملہ ہوا اور گھر چلانے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ ان حالات سے شکست کھانے کے بجائے صفیہ نے اس سے لڑنے کی ٹھانی۔ انہوں نے عزم مسمم کیا کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گی بلکہ محنت و مشقت کو اپنا شعار بنائیں گی اور اپنے گھر کی کفالت کریں گی۔
انہوں نے آٹو ڈرائیونگ جیسے مشکل کام کو اپنا پیشہ بنایا۔ صفیہ مردوں والا کام با آسانی کر رہی ہیں، لیکن نہ تو انہیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی شرم و عام، ان کی بس اتنی خواہش ہے کہ اس کی بڑی بہن کو حکومت کی طرف سے کوئی ملازمت مل جائے۔
صفیہ کے والد جب مفلوج ہوئے تو روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ صفیہ نے جب آٹو چلانے کا فیصلہ کیا تو آس پاس کے لوگوں نے بھی اس کی امداد کی۔ اسے آٹو چلانا سکھایا اور ہر طرح سے اس کا تعاون کیا۔
صفیہ کے گھر میں اس کی والدہ اور اس کی بڑی بہن ہیں۔ گھر میں مفلوج والد کے علاوہ کوئی مرد نہیں ہے۔ والدہ گھر سے 2 کلو میٹر دور ایک چھوٹی سی دکان چلاتی ہیں۔ بیٹے نہیں ہونے کا انہیں کوئی ملال نہیں ہے کیوں کہ صفیہ کسی بیٹے سے کم ہے کیا؟ صفیہ پر انہیں ناز ہے کیوں کہ وہ ان کا صرف سہارا ہی نہیں بنیں سماج کو بھی ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔