ہندی فلم دامنی میں سنی دیول کا مشہور ڈائیلاگ 'تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ' محض ایک فلم کی کہانی کو جوڑنے والا جملہ نہیں تھا بلکہ یہ ہماری عدالتوں کی حقیقت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں ججوں کے پاس مقدمات کی سماعت کے لیے چند منٹ ہی ہیں، وہاں آپ کو انصاف منٹوں میں تو نہیں مل سکتا ہے۔ ملک کی عدلیہ پر سال در سال مقدمات کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ اوسطاً ہر جج کے پاس ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔
ایسی صورتحال میں سماعت کو جلدی مکمل کرنے کی وجہ سے سماعت کا وقت منٹ تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ زیر التواء مقدمات کے بوجھ تلے دب رہی عدالتوں میں سماعت کا وقت کم ہونے کے سبب انصاف کے بنیادی مقصد پر سوال اٹھتا ہے۔ عالمی یوم انصاف کے موقع پر ہم بھارت کے عدالتی نظام سے متعلق کچھ مخفی پہلوؤں کے بارے میں جانتے ہیں۔
ملک کا عدالتی نظام ویسے تو انتہائی شفاف ہے، لیکن اتنی بڑی آبادی کی وجہ سے انصاف کے مندر میں مقدمات کی سماعت میں دیری ہی کہیں نہ کہیں لوگوں کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل پرتاپ چندر کا کہنا ہے کہ ' اگر ہم قومی سطح پر عدالتوں کے ذریعہ کیے جارہے نگرانی کرنے والے نیشنل جوڈیشیل ڈیٹا گریڈ ( این جے ڈی جی) کے ذریعہ حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ملک میں ہائی کورٹ، ضلعی کورٹ اور تحصیل کورٹ کے پاس کل تین کروڑ 77 لاکھ سے زائد معاملات میں سے تقریبا 37 لاکھ معاملات گزشتہ 10 برسوں سے زیرالتوا ہیں۔
کم وقت میں مقدمات کی سماعت کرنا
عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹس میں انصاف کے طور طریقوں کے بارے میں حال ہی میں کیے گئے مطالعے سے سامنے آئے حیران کن اعداد و شمار نے پریشان کن تصویر پیش کی ہے۔ مثال کے طور پر ہر جج مقدمے کی سماعت کے لیے پانچ منٹ کا وقت دیتا ہے۔ کچھ ہائی کورٹس میں تو یہ مدت ڈھائی منٹ تک محدود ہوگئی ہے۔ وہیں مختلف مقدمات میں سماعت کے لیے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ دیا گیا ہے۔
لاکھ کوششوں کے بعد بھی عدالت سے بوجھ کم نہیں ہورہا ہے
ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مسلسل بڑھتے ہوئے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے حکومت اور لاء کمیشن نے سماعت کے وقت کو کم کرنے کے لیے ججوں پر دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سینئیر ایڈوکیٹ پرتاپ چندر کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں طویل سماعتوں اور دلائل کے رواج کو محدود کر صرف عدالتی انکوائری کے عمل کو ممکل کرنے کے مشق کو فروغ دینے کی وجہ سے سماعت کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔
اس مسئلہ کا حل بھی ہے
مقدمات کی تعداد میں مسلسل اضافہ اور طالب انصاف کا منصف سے وقت پر انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد عدالتی نظام کے لیے ایک بیماری بن گیا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 73 ہزار افراد کے لیے ایک جج ہوتا ہے، جب کہ امریکہ میں یہ تناسب سات گنا کم ہے۔ اس طرح ہائی کورٹ کے ہر جج پر اوسطاً 1300 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف کی امید میں عدالتوں سے رجوع کرنے والے طالب انصاف کی تعداد کے تناسب میں ججز کی تعداد ناکافی معلوم ہورہی ہے۔
سینئیر ایڈوکیٹ پرتاپ چندر کا کہنا ہے کہ اگر مقدمات میں سماعت کا وقت طے ہو تو نائٹ عدالتوں اور فاسٹ ٹریک عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے، نیز ہر معاملے میں نظر ثانی درخواست کی اجازت نہیں دی جائے تو لوگوں کو وقت پر انصاف مل سکے گا۔
اعداد وشمار پر ایک نظر
- ملک میں ضلعی اور تحصیل عدالتوں میں 28 لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
- ان میں سے 5 لاکھ سے زیادہ زیر التوا مقدمات دو دہائیوں سے زیادہ پرانے ہیں۔
- تین دہائیوں سے 85 ہزار 141 مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
- ملک بھر میں 25 ہائی کورٹس کے پاس 47 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
- ان میں سے 9 لاکھ 20 ہزار سے زائد مقدمات 10 سال سے وقت سے زیرِ التواء ہیں۔
- پچھلے 20 برسوں میں 6 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ مقدمات سماعت کے منتظر ہیں۔
- 30 سال سے زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 1 لاکھ 31 ہزار ہیں۔