کورونا کی دوسری لہر نے بھارت بھر میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اس سے نمٹنے میں بھارتی حکومت کی ہر کوشش ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ملک میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہزاروں مریضوں کی موت ہورہی ہے۔ ملک میں کورونا کی دوسری لہر نے اتنی تباہی کیوں برپا کی، اس وبا کو روکنے میں کہاں چوک رہ گئی، کہیں اس کے ذمہ دار انتخابی جلسے جلوس اور ریلیاں تو نہیں ہیں۔ آئیے اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بھٹ کی معلومات سے بھرپور یہ خصوصی رپورٹ پڑھتے ہیں۔
کورونا کی وبا نے ملک بھر میں تباہی مچا رہی ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہیں۔ کورونا سے متاثرہ سمیت دوسرے مریض بھی ملک میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ہم، بطور ملک، معاشرے اور ایک فرد کے طور پر کورونا وبا کو روکنے میں کہاں ناکام ہوئے ہیں؟ اس پر ڈالتے ہیں ایک نظر ---
اس وقت یہاں اگر اس کا جواب نہ دیا گیا تو اس پر راز کے پردے پڑے رہیں گے۔ سیاست دانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، کیوں کہ ملک میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً تباہ ہوچکا ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ لوگ جو کورونا کی پہلی لہر کے بعد نام نہاد کامیابی کا جشن منا رہے تھے وہ طبی پیشے سے وابستہ نہیں تھے اور کورونا وبا کے تعلق سے سنجیدہ اور اس کی رہنمایانہ ہدایات سے راست متعلق نہیں تھے۔
اس وبا کے درمیان بہت سے ممالک میں انتخابات بھی ہوچکے ہیں۔ ملک اور دنیا کے پہلے انتخابات سری لنکا میں کورونا وبا کے درمیان ہوئے تھے۔ سری لنکا کی آبادی تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ ہے لیکن سری لنکا کے یہ انتخابات 1.3 بلین سے زیادہ آبادی والے ملک (بھارت) کے لئے اس کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے محرّک نہیں ہونا چاہئے۔
بہار میں کورونا کی وبا کے دوران پہلی بار اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ تاہم، آج کے برخلاف تب کی صورتحال اتنی مشکل نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ کیوں کہ تب انتخابی تشہیر اور جلسے بیشتر ورچوئل ذرائع سے کروائے گئے تھے۔ اس کے بعد کے تمام انتخابی جلسوں میں اکثر مفت کورونا ویکسین دینے کے وعدے کئے گئے تھے۔ لیکن اس کے بعد حکومت کی جانب سے اٹھایا گیا ایک قدم اب تباہ کن لگتا ہے جس میں 'ویکسین فرینڈشپ' کے اقدام کے تحت دوسرے ممالک کو کورونا ویکسین مفت دی گئی تھی۔ جب کہ بھارت کے کسی بھی حصے کی ویکسینیشن اب تک بھی مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ اس ملک کے عام عوام اس فلاحی کام کی اب بھاری قیمت چکارہے ہیں، انہیں نہ تو ویکسینیشن ہی مکمل ہوسکی اور نہ اب انہیں آکسیجن ہی مل پارہا ہے۔
بھارت میں پچھلے کچھ دنوں میں روزانہ کی بنیاد پر تین لاکھ سے زیادہ افراد کورونا میں مبتلا پائے جارہے ہیں۔ شمشان اور قبرستان لاشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں اس نازک صورتحال میں اس بحران سے نکال سکتی ہیں۔ ماسک، جسمانی فاصلہ ( سوشل ڈسٹینس ) اور ویکسینیشن۔ اگرچہ، لوگ اس وقت بڑے پیمانے پر ماسک پہننے لگے ہیں، لیکن جہاں تک ویکسینیشن کا تعلق ہے تو مختلف حلقوں میں جنگی بنیادوں پر اس کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔ یہاں تک کہ آبادی کی اکثریت کو ویکسین نہیں لگوادی جاتی، ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑدیا گیا ہے۔
ہر روز بڑی تعداد میں لوگ کورونا وائرس (کووڈ ۔19) سے متاثر ہورہے ہیں اور مررہے ہیں، جو ایک خوفناک صورتحال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں صورتحال اور بھی سنگین ہوسکتی ہے، کیوں کہ کورونا انفیکشن کا گراف اب بھی عروج پر نہیں پہنچا ہے۔ اتنی سنگین صورتحال کے باوجود ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت صحت کے بنیادی ڈھانچے کو خاص طور پر آکسیجن کی فراہمی کو ٹھیک کرکے سلنڈرس کی دستیابی کو یقینی بنائے گی۔
شمشان گھاٹ پر ملک بھر میں لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ خاص طور پر اترپردیش اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں کے علاوہ دہلی میں صورتِ حال دِگرگوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے کورونا ہدایات پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ افسران بھی نرم پڑگئے تھے۔ اب جب ملک میں تباہی پھیلی ہوئی ہے تو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس نازک موڑ پر لوگوں کو امید ہے کہ عدلیہ ان سب چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کا کوئی پائیدار حل نکالے گی۔
یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مدراس ہائی کورٹ نے بھارتی الیکشن کمیشن کو کورونا کی دوسری لہر کے لئے 'تنہا' ذمہ دار ٹھہرایا۔ ہائیکورٹ نے سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔
عدالت میں جب الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ کووڈ رہنما خطوط پر ان کی طرف سے پوری پابندی کی گئی ہے، رائے دہی والے دن بھی کووڈ اصولوں پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ کمیشن کی اس دلیل پر عدالت نے سخت رویہ ظاہر کیا اور استفسار کیا۔ انتخابی ریاستوں میں منعقدہ جلسوں وریلیوں کے تناظر میں عدالت نے سوال کیا کہ جب انتخابی مہم اور تشہیر چل رہی تھی تو کیا الیکشن کمیشن کسی دوسرے سیارے پر تھا؟
حقیقت میں ایک ایسے وقت میں جب شمشان اور قبرستانوں کے قبرستان لاشوں سے بھرے پڑے ہیں، کورونا وائرس سے متعلق معلومات اور ہدایات کے بجائے انتخابی ریاستوں میں جلسوں وریلیوں کی فوٹوز اور ویڈیوز کو ٹی وی چینلز پر زیادہ دکھایا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورونا سے بچنے کے طریقے چینلوں پر بتائے جاتے۔ بڑی انتخابی ریلیوں کا یہ مقابلہ اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملا۔ مغربی بنگال میں جارحانہ تشہیر ہورہی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی پوری طاقت استعمال کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں اب تک سات مرحلے کے انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انتخابی ریلیوں میں سیاست دانوں کی تقاریر میں عوام کے لیے جو سننے آئے ان لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے شاید ہی کوئی الفاظ تھے، یہاں تک کہ جلسوں میں لاکھوں لوگ موجود ہوتے تھے۔ ایسی صورتحال میں یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ کا ہر دوسرا باشندہ شہری گذشتہ دنوں کیے گئے کورونا ٹیسٹ میں مثبت پایا گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں اتراکھنڈ میں منعقدہ کمبھ میلہ -2021 کا اگر ذکر نہ کیا گیا تو موضوع سے ناانصافی ہوگی۔ یہاں اس کا تذکرہ بامعنی معلوم ہوتا ہے۔ اتراکھنڈ میں منعقدہ کمبھ میلہ میں ایک ہفتہ میں لاکھوں افراد یہاں جمع ہوگئے، لیکن یہ استدلال پیش کیا گیا کہ کھلے آسمان تلے میلہ کا منعقد ہونا جواز پیدا کرتا ہے۔ فضا کھلی ہونے کے سبب کورونا پھیلنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ ہمیں کمبھ میلہ کے انعقاد سے بار بار یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ خطرے سے خالی ہے۔
اب چونکہ ریلیوں اور میلوں کے سبب کورونا نے ایک خوفناک شکل اختیار کرلی ہے، وہیں مذہبی رہنما آئے دن کووڈ 19 سے متعلق رہنما اصولوں پر عمل کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کورونا ہدایات پر عمل آوری کی بات کی تھی۔ لیکن زیادہ تر نے تو کمبھ کے وقت کووڈ سے متعلق رہنما ہدایات کا مذاق اڑایا تھا۔
(تحریر بلال بھٹ کے قلم سے)