اپنے ابتدائی کلمات میں پروفیسر منصور نے کہا کہ "سرسید اکیڈمی بہت فعال رہی ہے اور ریکارڈ کو ڈیجیٹل کرنے پر کام کررہی ہے۔
انہوں نے ایک اہم موضوع پر ویبینار کا انعقاد کرنے اور سر سید کے رفقاء اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ شخصیات پر اشاعتی سلسلہ شروع کرنے کے لئے سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد کی کاوشوں کو سراہا۔
اس موقع پر دو مونوگراف اور ایک کتاب کا بھی اجرا کیا۔ مونوگراف کے مصنفین کو مبارکباد دیتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ سرسید کے لبرل اور بین المذاہب مکالمے سے متعلق افکار کی نشر و اشاعت میں اے ایم یو کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، سر سید دور اندیشی مصلح تھے جنہوں نے مسلمانوں کو سائنسی مزاج اپنانے اور قرون وسطی کی سوچ سے باہر نکالنے کی تلقین کی۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر سید شاہد مہدی نے کہا کہ "سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے بھارتی معاشرے کو تبدیل کرنے کے لئے گراں قدر کام کیا۔ اس تحریک نے برصغیر کے لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی زندگیوں اور ادب پر انمٹ نقوش ثبت کئے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ سرسید احمد خان کی بازیافت ہو، جنہوں نے مذہبی رواداری، آزادی اظہار اور دیگر لبرل اقدار کی ترویج کی۔
سر سید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے مقالات سرسید کا تعارف کرایا۔ انہوں نے کہا کہ سرسید اکیڈمی قدیم اور قیمتی دستاویزات کو ضروری ترمیم کے ساتھ سامنے لانے کے لئے مسلسل کام کررہی ہے۔
سر سید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے "سر ضیاءالدین احمد، لائف اینڈ ورکس" کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سر ضیاءالدین احمد نے علی گڑھ تحریک کی توسیع و ترقی کے لئے بہت کام کیا مگر ان کی حصولیابیوں کو اس طرح اجاگر نہیں کیا جاسکا جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ مونوگراف ڈاکٹر سر ضیاءالدین احمد کے بارے میں وسائل اور مواد کے حوالے سے ایک بڑی ضرورت کو پورا کرے گا۔
مزید پڑھیں:البرٹ آئنسٹائن کو نوبل انعام ملنے کے سو سال مکمل ہونے پر خصوصی پروگرام
اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سرسید اکیڈمی کی طرف سے شائع ہونے والی تین کتابوں کا اجراء بھی کیا جس میں دو مونوگراف بھی شامل ہیں۔
1۔ مولانا اسماعیل پانی پتی کی "مقالات سر سید"
2۔ محمد حارث بن منصور کی "ضیاءالدین احمد: لائف اینڈ ورکس"
3۔ ظفر منہاس کی "صاحبزادہ آفتاب احمد خان"۔