دہرادون: اتراکھنڈ حکومت نے 11 مارچ سے اتر پردیش اور ہماچل پردیش کی سرحدوں پر مبینہ طور پر غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کی مہم شروع کی ہے۔ اس سلسلے میں ہماچل پردیش کی سرحد پر محکمہ جنگلات نے آج صبح کے وقت مبینہ طور پر کئی غیر قانونی مزارات اور تجاوزات پر بلڈوزر چلا دیا ہے۔ دراصل اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کی سرحد پر بہنے والی شکتی نہر میں تین بڑے سولر پلانٹ لگائے جانے ہیں۔ اس کے لیے جگہ کو نشان زد بھی کیا گیا تھا۔ محکمہ جنگلات نے اپنی طرف سے یہاں کے مبینہ طور پر تجاوزات اور غیر قانونی مذہبی مقامات کے ذمہ داران کو نوٹس دے کر ہٹانے کے احکامات دیے تھے۔ سب سے پہلے محکمہ جنگلات نے اس علاقے کی بجلی کاٹ دی۔ اس کے بعد بھی جب یہ لوگ یہاں سے نہیں ہٹے تو آج صبح محکمہ جنگلات نے تمام جگہوں پر بلڈوزر چلانا شروع کر دیا ہے۔ اس پورے علاقے میں 21 سے زائد مزارات ہیں جن میں سے دو مزارات پر بلڈوزر چلا دیا گیا ہے جبکہ 600 افراد کی جانب سے کی گئی مبینہ تجاوزات پر بھی بلڈوزر کی کارروائی جاری ہے۔
اتراکھنڈ حکومت مسلسل مبینہ طور پر تجاوزات کرنے والوں کو نوٹس بھیج رہی ہے۔ فی الحال محکمہ جنگلات اس پورے معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس میں سیاست کر رہے ہیں جب کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ محکمہ جنگلات کی املاک پر کسی بھی قسم کی تجاوزات کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔دوسری جانب گڑھوال اور کماون میں 100 سے زائد مزارات اور دیگر مذہبی مقامات ہیں، جہاں وقتاً فوقتاً بلڈوزر کے ذریعہ تجاوزات ہٹانے کا کام جاری ہے۔ اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کا علاقہ جہاں یہ مبینہ تجاوزات ہو رہی ہیں وہ تقریباً 14 کلومیٹر کا علاقہ ہے، جس میں 600 خاندان رہتے ہیں۔ سال 2009 میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت کو حکم دیا تھا کہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی سرحدوں پر موجود تمام تجاوزات کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے لیکن تجاوزات کرنے والے کبھی سپریم کورٹ اور کبھی ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے معاملے کو التوا میں ڈال رہے ہیں، لیکن گزشتہ چند دنوں سے تجاوزات کے علاقے میں مسلسل بلڈوزر چلایا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ امروہہ: قومی شاہراہ کی توسیع کے دوران مزارات مسمار
تاہم ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کی سرحد پر مبینہ تجاوزات کو ہٹانے کا کام 12 مارچ یعنی کل سے شروع ہونا تھا لیکن بعض تنظیموں کی مخالفت کی وجہ سے اسے روک دیا گیا۔ ان تجاوزات کو آج صبح محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کی موجودگی میں ہٹایا جا رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ محکمہ جنگلات کے حکام نے واضح کیا ہے کہ میڈیا کے اہلکاروں اور تنظیم سے وابستہ لوگوں کو ان مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہے جہاں مذہبی مقامات کو ہٹانے کا کام کیا جائے گا تاہم ایسا نہیں ہے کہ یہ کارروائی صرف اتراکھنڈ میں ہو رہ ہے بلکہ اس سے پہلے یوپی میں بھی کئی مبینہ غیر قانونی مزارات ہٹائے جا چکے ہیں۔