افغانستان کے دارالحکومت کابل سے آخری امریکی فوجیوں کے نکلنے کے ایک دن بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے قوم سے خطاب کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا مجھے یقین ہے کہ یہ ایک صحیح، دانشمندانہ اور امریکہ کے لیے بہترین فیصلہ ہے۔ کابل میں گزشتہ رات امریکہ نے افغانستان میں 20 سالہ جنگ کو ختم کیا ہے جو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے تاریخ کی سب سے بڑے فضائی انخلا کو مکمل کیا ہے جس میں 120،000 سے زائد افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے دوگنی ہے جو زیادہ تر ماہرین کے خیال میں ممکن تھی۔ کسی بھی قوم نے پوری تاریخ میں ایسا کچھ نہیں کیا، صرف امریکہ کے پاس یہ کرنے کی صلاحیت تھی اور ہم نے اس کو بخوبی کیا بھی۔
اس مشن کی غیر معمولی کامیابی میں امریکی فوج، ہمارے سفارت کاروں اور ہمارے انٹیلی جنس پیشہ وروں کی ناقابل یقین مہارت، بہادری اور بے لوث جرات کا کافی اہم کردار رہا ہے ۔
انھوں نے کئی ہفتوں تک امریکی شہریوں اور افغانیوں کی مدد کی، ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے شہریوں اور دیگر افراد کو جہازوں پر اور ملک سے باہر جانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا اور انہوں نے یہ کام ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے والے بہت زیادہ ہجوم کا سامنا کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے یہ مشن آئی ایس آئی ایس کے دہشت گردوں کے حملہ کو جانتے ہوئے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر پیشہ ورانہ فائدہ کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی خدمت کے لیے کیا۔ جنگ کے مشن میں نہیں بلکہ رحم کے مشن میں کیا۔ اس مشن میں ہمارے بیس سروس ممبرز زخمی ہوئے اور تیرہ ہیروز نے اپنی جانیں دیں۔
خطاب میں امریکی صدر نے یہ بھی کہا افغانستان میں جنگ اب ختم ہو چکی ہے، میں چوتھا صدر ہوں جس نے اس جنگ کا سامنا کیا ہے اور اب اس جنگ کو ختم کرنا ہے۔جب میں صدر کے لیے انتخاب لڑ رہا تھا تو میں نے امریکی عوام سے عہد کیا تھا کہ میں اس جنگ کو ختم کروں گا۔ آج میں نے اس عزم کا احترام کیا ہے، امریکی عوام کے ساتھ دوبارہ ایماندار ہونے کا وقت آگیا۔
اب افغانستان میں ہمارا کوئی واضح مقصد نہیں تھا۔ افغانستان میں 20 سال کی جنگ کے بعد میں امریکہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی ایک اور نسل کو ایسی جنگ لڑنے کے لیے بھیجنے کا قائل نہیں تھا جس کو بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا۔
میں ایسی جنگ جاری رکھنے کا کبھی بھی قائل نہیں ہو جو اب ہمارے لوگوں کے اہم قومی مفادات کے حق میں نہیں تھی۔
افغان جنگ میں 2400 سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک اور تقریباً 23000 زخمی ہوئے۔ بیس برس کے بعد بھی میں مزید امریکی جانوں کا ضیاع نہیں ہونے دوں گا، ماضی کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا افغانستان میں ہزاروں فوجی تعینات رکھ کے اور اربوں ڈالر خرچ کر کے امریکیوں کی سیکورٹی بڑھائی جاسکتی تھی۔ امریکا کو حکمت عملی بدلنا ہوگی، ہمیں اب انسداد دہشت گردی کے لیے زمین پر فوجیوں کی ضرورت نہیں۔
Afghanistan: افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ جنگ کا اختتام
انھوں نے کہا کہ 31 اگست کی ڈیڈ لائن کا فیصلہ امریکی جانوں کو بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔سابق صدر نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت چند ماہ بعد پہلی مئی تک امریکی فوجیوں کو انخلا کرنا تھا۔
جب میں دفتر آیا تو طالبان 2001 کے بعد سے سب سے مضبوط فوجی پوزیشن پر تھے اور ملک کے تقریبا آدھے حصے کو کنٹرول یا مقابلہ کر رہے تھے۔
پچھلی انتظامیہ کے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر ہم یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر قائم رہے جس پر انہوں نے دستخط کیے تھے تو طالبان کسی امریکی فوج پر حملہ نہیں کریں گے لیکن اگر ہم مزید ٹھہرے ہوتے تو تمام عہد وپیماں ختم ہوجاتے۔
لہذا ہمارے پاس ایک سادہ فیصلہ رہ گیا تھا یا تو آخری انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے وعدے پر عمل کریں اور افغانستان چھوڑ دیں یا یہ کہ ہم واپس نہیں جا رہے ہیں اور مزید ہزاروں فوجیوں کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ جنگ میں واپس جانا یا انخلا کا انتخاب کرنا کے درمیان مجھے فیصلہ کرنا تھا لیکن میں نے اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے نہیں بڑھایا۔
قوم سے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ کابل ایئر پورٹ پر ملٹری لفٹ آپریشنز کو ختم کرنے کا فیصلہ میرے سویلین اور ملٹری ایڈوائزر، سیکریٹری اسٹیٹ ، سیکریٹری دفاع ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور تمام سروس چیفس اور کمانڈرز کی متفقہ سفارشات پر مبنی تھا۔
انھوں نے کہا کہ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ہم نے 17 دنوں میں کابل میں آپریشن مکمل کیا ، ہم ہر امریکی کو چلے جانے کا موقع فراہم کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے کوشش میں مصروف رہے۔ہمارا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ 24/7 کام کر رہا تھا اور رابطہ کر رہا تھا اور بات کر رہا تھا۔انخلا میں دیر کرتے تو حالات پھر بھی خطرے سے خالی نہ ہوتے
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ نوے فیصد امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکال چکے ہیں، ہمیں یقین ہے 100 سے 200 امریکی باشندے اب بھی افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں، امید ہے کہ طالبان وعدے پر قائم رہیں گے، طالبان کے کہنے پر یقین نہیں ان کے عمل کو دیکھیں گے۔
American Weapons: طالبان کے ہاتھ لگنے والے امریکی فوجی سازوسامان
جہاں تک افغانوں کا تعلق ہے ہم نے اور ہمارے شراکت داروں نے ان میں سے 100،000 کو ہوائی جہاز پر منتقل کیا ہے۔ تاریخ میں کسی بھی ملک نے کسی دوسرے ملک کے باشندوں کو باہر نکالنے کے لیے اس سے زیادہ کام نہیں کیا جتنا ہم نے کیا ہے۔ہم مزید لوگوں کو ملک چھوڑنے میں مدد کے لیے کام جاری رکھیں گے جو خطرے میں ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ میں فیصلے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں بڑے پیمانے پر انخلا شروع کرنا چاہیے تھا اور کیا یہ زیادہ منظم طریقے سے نہیں کیا جا سکتا تھا؟" میں ان سے متفق نہیں ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ذرا سوچئے ہم نے جون یا جولائی میں انخلاء شروع کیا، ہزاروں امریکی فوجی لائے اور ایک خانہ جنگی کے دوران 120،000 سے زیادہ لوگوں کو نکال لیا۔
افغانستان میں تیسری دہائی کی جنگ کا مطالبہ کرنے والوں سے میں پوچھتا ہوں "اہم قومی مفاد کیا ہے؟" میری نظر میں ہمارے پاس صرف ایک ہے، یہ یقینی بنانے کے لیے کہ افغانستان کو دوبارہ کبھی اپنے وطن پر حملہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ہم پہلے افغانستان کیوں گئے؟ کیونکہ ہم پر 11 ستمبر 2001 کو اسامہ بن لادن اور القاعدہ نے حملہ کیا تھا اور وہ افغانستان میں مقیم تھے، ہم نے ایک دہائی قبل 2 مئی 2011 کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے اپنا بدلا لے لیا ہے۔
ہم نے ایک دہائی قبل افغانستان میں جو کچھ کرنے کا ارادہ کیا تھا اس میں کامیاب ہو گئے اس کے بعد بھی ہم ایک اور دہائی تک وہاں مقیم رہے لیکن یہ جنگ ختم کرنے کا وقت تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک نئی دنیا ہے۔ دہشت گردی کا خطرہ افغانستان کے علاوہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ہمیں صومالیہ میں الشباب، جزیرہ نما عرب شام میں القاعدہ سے وابستہ اور آئی ایس آئی ایس شام اور عراق میں خلافت بنانے کی کوششوں اور پورے افریقہ اور ایشیا میں ملحقہ تنظیموں کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ایک صدر کی بنیادی ذمہ داری میری رائے میں امریکہ کا دفاع اور حفاظت کرنا ہے ، 2001 کی دھمکیوں کے خلاف نہیں بلکہ 2021 اور کل کی دھمکیوں کے خلاف ہونی چاہیے ۔ افغانستان کے بارے میں میرے فیصلوں کے پیچھے یہی رہنما اصول ہیں۔
افغانستان چھوڑنے سے قبل امریکی افواج نے جنگی ساز و سامان ناکارہ بنادیا
صدر جوبائیڈن نے کہا کہ یہاں سمجھنے کے لیے ایک اہم چیز ہے کہ دنیا بدل رہی ہے۔ہم چین کے ساتھ ایک سنجیدہ مقابلے میں مصروف ہیں۔ ہم روس کے ساتھ کئی محاذوں پر چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں۔ ہم سائبر حملوں اور ایٹمی پھیلاؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں 21 ویں صدی کے مقابلے میں ان نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو بڑھانا ہوگا۔
جب ہم خارجہ پالیسی کا صفحہ پلٹتے ہیں جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے ہماری قوم کی رہنمائی کی ہے ، ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔
میرے نزدیک دو اہم باتیں ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں واضح قابل حصول اہداف کے ساتھ مشن طے کرنے ہوں گے ورنہ ہم کبھی بھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ پائیں گے اور دوسرا، ہمیں واضح طور پر امریکہ کی بنیادی قومی سلامتی کے مفادات پر مرکوز رہنا چاہیے۔
اخیر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کا یہ فیصلہ صرف افغانستان کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ دوسرے ممالک کو دوبارہ بنانے کے لیے بڑی فوجی کارروائیوں کے دور کو ختم کرنے کے بارے میں بھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری، بین الاقوامی اثر و رسوخ اور انسانی امداد کے ذریعے افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہم تشدد اور عدم استحکام کو روکنے کے لیے علاقائی سفارتکاری کی مصروفیت پر زور دیتے رہیں گے۔
ہم افغان عوام بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے لیے بولتے رہیں گے جیسا کہ ہم پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے بولتے ہیں۔
میں واضح کر چکا ہوں کہ انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز ہوں گے لیکن ایسا کرنے کا طریقہ لامتناہی فوجی تعیناتیوں کے ذریعے نہیں بلکہ سفارت کاری، اقتصادی اور باقی دنیا کو اکٹھا کرنے کے ذریعے ہے۔