افغانستان کے سرد علاقوں میں یونیورسٹیز صنفی علیحدگی کے نئے اصولوں کے ساتھ تمام طلباء کے لیے کھول دی گئی ہیں۔ طالبان حکومت کی وزارت اعلیٰ تعلیم (ایم او ایچ ای) کے ترجمان احمد تقی نے طلوع نیوز کے حوالے سے بتایا کہ "سرکاری یونیورسٹیز اور ادارے آج دوبارہ کھول دیے گئے ہیں"۔ Universities Reopen in Afghanistan With Gender Segregation
طلوع نیوز کے حوالے سے اساتذہ اور طلبا نے کہا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاسیز الگ الگ ہیں اور مختلف شفٹوں میں ہیں۔ کابل یونیورسٹی کے طلباء نے کہا کہ صںفی بنیاد پر کلاسز کی تقسیم نے تدریس کے طریقہ کار کو متاثر کیا ہے۔
طالب علم حیات اللہ نے بتایا کہ "ہمارے بہت سے انسٹرکٹرز غیر حاضر تھے۔ تاہم چند انسٹرکٹرز موجود تھے۔" یونیورسٹیز اور کالجز کے دوبارہ کھلنے پر متعدد طلباء اور اساتذہ نے جشن منایا۔ بلخ یونیورسٹی کے ایک انسٹرکٹر بادشاہ زر آبادی نے کہا کہ"یونیورسٹیز کا دوبارہ کھلنا ایک اچھی اور خوش آئند خبر ہے۔"
کچھ طلباء نے نصابی کتب میں بالخصوص آرٹس فیکلٹی میں ممکنہ تبدیلیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اس ماہ کے شروع میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے 2 فروری سے ملک کے گرم علاقوں میں یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کا خیرمقدم کیا تھا۔