سوشل میڈیا صارفین کے شدید احتجاج کے بعد پیر کی شام کو ٹویٹر نے اپنی ویب سائٹ سے جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارت سے الگ دکھانے والے غلط نقشہ (Twitter India Wrong Map) کو ہٹا دیا ہے۔
نئی انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) قوانین کی تعمیل کو لے کر ٹویٹر پر تنازعہ کے دوران ٹویٹر کی ویب سائٹ میں بھارت کا غلط نقشہ دکھایا جارہا تھا جس میں جموں و کشمیر اور لداخ کو ایک علیحدہ ملک کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
یہ نقشہ ٹویٹر کے "ٹویپ لائف" سیکشن کے تحت انکشاف کیا گیا تھا جس میں جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارت سے باہر دکھایا گیا تھا۔ ایک ٹویٹر صارف نے مسخ شدہ نقشے کی طرف توجہ مبذول کروائی اور اس معاملے میں صارفین کے سخت رد عمل سامنے آنے لگے اور اس پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹویٹر نے بھارت کے نقشے کو غلط انداز میں پیش کیا ہو۔ اس سے قبل انہوں نے لیہہ کو چین کا حصہ دکھایا تھا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت اس معاملے میں بہت سخت کارروائی کر سکتی ہے۔ مرکزی حکومت اور ٹویٹر کے مابین جاری تصادم کا یہ تازہ واقعہ ہے۔ اس سے قبل بھی حکومت اور ٹویٹر کے مابین آئی ٹی کے نئے قواعد کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ٹویٹر نے جموں و کشمیر، لداخ کو الگ ملک کے طور پیش کیا
آخر کیا ہے 'بلیو ٹِک' جس پر ہنگامہ مچا ہوا ہے
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے ایک مہینے میں ٹویٹر اور حکومت کے مابین تنازعہ کے بہت سے معاملات منظر عام پر آئے ہیں۔ دو دن پہلے ٹویٹر نے آئی ٹی وزیر روی شنکر پرساد، پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین اور کانگریس کے رہنما ششی تھرور کے اکاؤنٹ کو ایک گھنٹے کے لیے بند کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ کچھ دن پہلے ہی ٹویٹر انڈیا کے سربراہ کو غازی آباد میں ایک مسلم بزرگ کی مار پیٹ کے معاملے میں گمراہ کن معلومات پھیلانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا لیکن اب انھیں عدالت سے راحت مل چکی ہے۔
وہیں ٹویٹر کے ذریعہ آر ایس ایس کے کچھ رہنماؤں کے تصدیق شدہ اکاؤنٹس سے بلیو ٹک کو ہٹانے کا معاملہ بھی کافی زیر بحث تھا۔
یہ بھی پڑھیں: Twitter Interim Grievance Officer Resigns: بھارت میں ٹویٹر کے افسر نے استعفیٰ دے دیا
وہیں 26 مئی کی ڈیڈ لائن کے اندر ڈیجیٹل کمپنیوں پر لاگو نئے آئی ٹی قواعد پر عمل درآمد نہ کرنے کے لیے حکومت نے قانونی کارروائی سے ٹویٹر کو دی گئی چھوٹ کو بھی واپس لے لی ہے۔ایسی صورتحال میں اسے اپنے پلیٹ فارم پر کسی بھی قابل اعتراض مواد کے لیے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مرکزی انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے حال ہی میں سوشل میڈیا فارموں سے کہا کہ وہ بھارت کو آزادی اظہار رائے اور جمہوریت پر تقریر نہ کریں اور اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر یہ منافع بخش کمپنیاں بھارت میں پیسہ کمانا چاہتی ہیں تو انہیں آئین ہند اور بھارتی قوانین کی پیروی کرنی ہی ہوگی۔