ETV Bharat / bharat

علاقائی زبانوں میں قرآن کے تراجم وقت کی اہم ضرورت

اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسرز نے کہا، علاقائی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ترجمہ قرآن کا کام بہت دشوار اور ہمت طلب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو غلطیاں مستشرقین نے کی ہیں وہ ہم سے سرزد نہ ہوں۔

علاقائی زبانوں میں قرآن کے تراجم وقت کی اہم ضرورت
علاقائی زبانوں میں قرآن کے تراجم وقت کی اہم ضرورت
author img

By

Published : Sep 1, 2021, 5:48 PM IST

مجتبیٰ فاروق نے لکچر ”انگریزی تراجم قرآن -ایک سروے“ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تراجم قرآن کے سلسلے میں مستشرقین نے کوئی ٹھوس اور معروف منہج اختیار نہیں کیا، بلکہ غیر علمی اور غیر منطقی طرز استدلال اختیار کیا۔ ہر جگہ تعصب اور جانب داری سے کام لیا گیا۔

علاقائی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ترجمہ قرآن کا کام بہت دشوار اور ہمت طلب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو غلطیاں مستشرقین نے کی ہیں وہ ہم سے سرزد نہ ہوں۔ ان خیالات کا اظہار پر وفیسر محمد اسحاق، پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی، صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مانو نے بزم تحقیق، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکچر کے بعد اپنے خطاب میں کیا۔

مجتبیٰ فاروق (پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مانو) نے آن لائن لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ گیارہویں اور بارہویں صدی میں یوروپ میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام سب سے پہلے لاطینی زبان میں ہوا۔ لاطینی زبان اس وقت یوروپ میں غالب زبان کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے علاوہ اس کو مذہبی درجہ بھی حاصل تھا۔ پھر سولہویں صدی میں انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن کا آغاز ہوا اور سارے ترجمے اس وقت مستشرقین کررہے تھے۔

ان ترجموں میں اہم ترجمہ جارج سیل کا ہے جو انہوں نے 1734ء میں کیا۔ اس ترجمہ کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کا ترجمہ براہ راست عربی زبان سے کیا۔ اس ترجمے سے اہل یوروپ اور مغربی دنیا بڑی تعداد میں قرآن مجید سے متعارف ہوئی۔

مجتبیٰ فاروق نے لکچر ”انگریزی تراجم قرآن -ایک سروے“ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ تراجم قرآن کے سلسلے میں مستشرقین نے کوئی ٹھوس اور معروف منہج اختیار نہیں کیا، بلکہ غیر علمی اور غیر منطقی طرز استدلال اختیار کیا۔ ہر جگہ تعصب اور جانب داری سے کام لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:لکھنؤ: کورونا گائڈ لائنز کے ساتھ مدارس کھولنے کی اجازت

پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ قریب پانچ چھ صدیوں تک انگریزی اور لاطینی زبانوں میں غیروں نے قرآن کے ترجمے کئے اور مسلمان اس سے دور رہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں کی زبانوں میں قرآن کے ترجمے کئے جائیں تاکہ لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچ سکے۔

عامر مجیبی (پی ایچ ڈی اسکالر) نے پروفیسر محمد اسحاق کا تعارف پیش کیا۔ پروگرام کی نظامت امانت علی قاسمی(پی ایچ ڈی اسکالر) نے انجام دی اور صبا انجم (پی ایچ ڈی اسکالر)کے کلمات تشکر پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ پروگرام کا آغاز محمد صلاح الدین (پی ایچ ڈی اسکالر) کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

یو این آئی

مجتبیٰ فاروق نے لکچر ”انگریزی تراجم قرآن -ایک سروے“ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تراجم قرآن کے سلسلے میں مستشرقین نے کوئی ٹھوس اور معروف منہج اختیار نہیں کیا، بلکہ غیر علمی اور غیر منطقی طرز استدلال اختیار کیا۔ ہر جگہ تعصب اور جانب داری سے کام لیا گیا۔

علاقائی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ترجمہ قرآن کا کام بہت دشوار اور ہمت طلب ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو غلطیاں مستشرقین نے کی ہیں وہ ہم سے سرزد نہ ہوں۔ ان خیالات کا اظہار پر وفیسر محمد اسحاق، پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی، صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مانو نے بزم تحقیق، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکچر کے بعد اپنے خطاب میں کیا۔

مجتبیٰ فاروق (پی ایچ ڈی اسکالر، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، مانو) نے آن لائن لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ گیارہویں اور بارہویں صدی میں یوروپ میں قرآن کریم کے ترجمے کا کام سب سے پہلے لاطینی زبان میں ہوا۔ لاطینی زبان اس وقت یوروپ میں غالب زبان کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے علاوہ اس کو مذہبی درجہ بھی حاصل تھا۔ پھر سولہویں صدی میں انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن کا آغاز ہوا اور سارے ترجمے اس وقت مستشرقین کررہے تھے۔

ان ترجموں میں اہم ترجمہ جارج سیل کا ہے جو انہوں نے 1734ء میں کیا۔ اس ترجمہ کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کا ترجمہ براہ راست عربی زبان سے کیا۔ اس ترجمے سے اہل یوروپ اور مغربی دنیا بڑی تعداد میں قرآن مجید سے متعارف ہوئی۔

مجتبیٰ فاروق نے لکچر ”انگریزی تراجم قرآن -ایک سروے“ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ تراجم قرآن کے سلسلے میں مستشرقین نے کوئی ٹھوس اور معروف منہج اختیار نہیں کیا، بلکہ غیر علمی اور غیر منطقی طرز استدلال اختیار کیا۔ ہر جگہ تعصب اور جانب داری سے کام لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:لکھنؤ: کورونا گائڈ لائنز کے ساتھ مدارس کھولنے کی اجازت

پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ قریب پانچ چھ صدیوں تک انگریزی اور لاطینی زبانوں میں غیروں نے قرآن کے ترجمے کئے اور مسلمان اس سے دور رہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں کی زبانوں میں قرآن کے ترجمے کئے جائیں تاکہ لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچ سکے۔

عامر مجیبی (پی ایچ ڈی اسکالر) نے پروفیسر محمد اسحاق کا تعارف پیش کیا۔ پروگرام کی نظامت امانت علی قاسمی(پی ایچ ڈی اسکالر) نے انجام دی اور صبا انجم (پی ایچ ڈی اسکالر)کے کلمات تشکر پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ پروگرام کا آغاز محمد صلاح الدین (پی ایچ ڈی اسکالر) کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.