وزیر اعظم نریندر مودی (Narendra Modi) نے 19 نومبر 2021 بروز جمعہ کو صبح 9 بجے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی کابینہ اگلے ماہ اس پر فیصلہ کرے گی۔
- تینوں زرعی قوانین مندرجہ ذیل ہیں:
- پہلا قانون: زرعی پیداواری تجارت اور تجارت (فروغ اور آسانیاں) ایکٹ
اے پی ایم سی (زراعت پروڈکٹ مارکٹ کمیٹی) کی رجسٹرڈ منڈیوں سے باہر فصلوں کو فروخت کرنے والے کسانوں اور تاجروں کو آزادی حاصل ہوگی۔ فصل کو بغیر کسی پابندی کے ملک میں کہیں بھی فروخت کی جاسکتی ہے۔ مناسب قیمت کے لیے نقل و حمل اور مارکیٹنگ کے اخراجات کو کم کرنے پر زور۔ الیکٹرانک کاروبار کے لیے آسان فریم ورک کی تشکیل دینا اس قانون میں شامل ہے۔
- دوسرا قانون: کاشتکار (باختیار اور تحفظ) قیمت انشورنس اور زرعی خدمات ایکٹ سے متعلق معاہدہ
کاشتکاری معاہدہ کے تحت کانٹریکٹ فارمنگ کرنے کی اجازت۔ اس کے لئے قومی فریم ورک کی سہولت۔
اس معاہدے کے تحت کسان براہ راست زرعی تجارتی کمپنیوں، فرموں، تھوک فروشوں، برآمد کنندگان یا بڑے خوردہ فروشوں کے ساتھ معاہدے کرسکیں گے اور اسی وقت قیمت بھی طے کی جائے گی۔ معاہدہ صرف فصلوں کے تعلق سے ہوگا، کسانوں کی زمین سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔
- تیسرا قانون: ضروری اشیاء (ترمیم) ایکٹ
دالیں، تیل، پیاز، آلو، خوردنی تیل اور دیگر فصلوں کو ضروری اشیاء کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔ ایمرجنسی کے علاوہ ان اشیأ کا کسی بھی مقدار میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ ابھی تک یہ قانونی نہیں تھا۔ اس سہولت کی وجہ سے زراعتی شعبے میں نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ کولڈ اسٹوریج اور سپلائی چین میں سرمایہ کاری بڑھے گی جبکہ سامان کی قیمتیں مستحکم رہیں گی۔
گذشتہ برس جون سے اب تک یہ تینوں قوانین مودی حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئے تھے۔ گرو نانک جینتی کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا "اگرچہ کسانوں کا ایک طبقہ (زرعی قوانین) کی مخالفت کر رہا تھا۔ ہم نے مذاکرات کی کوشش کی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی گیا۔ اب ہم نے زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔' پی ایم مودی نے کسانوں سے اپیل کی، آپ اپنے گھر واپس لوٹیں، کھیتی پر واپس آئیں، خاندان کے پاس واپس آئیں، ایک نئی شروعات کریں۔ کسانوں کی یہ تحریک گزشتہ ایک برس سے جاری تھی۔ جانیں کب کیا ہوا۔۔۔
پانچ جون سنہ 2020: سب سے پہلے مودی سرکار ایک آرڈیننس کے ذریعے تین زرعی بل لائی، اپوزیشن جماعتوں نے آرڈیننس کے خلاف احتجاج کیا۔
14 ستمبر سنہ 2020 کو مرکزی حکومت نے ان بلوں کو پارلیمنٹ میں پیش کیا۔
17 ستمبر سنہ 2020 کو اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود لوک سبھا میں منظو کرلیے گئے۔
20 ستمبر سنہ 2020 کو پوزیشن کی مخالفت اور ہنگامہ کے باوجود راجیہ سبھا مذکورہ زرعی قوانین صوتی ووٹ کی بنا پر منظور کرلیے گئے۔
25 ستمبر 2020 کو پہلی بار زرعی قوانین پر کسان تنظیموں نے احتجاج کرنا شروع کیا۔ آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی نے احتجاج کا اعلان کیا۔
27 ستمبر 2020 کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کوند نے تینوں زرعی قوانین کو ہری جھنڈی دے دی۔ اس کے بعد یہ بل قانون میں تبدیل ہوگئی، قانون میں تبدیل ہوتے ہی احتجاج شدت اختیار کرگئی۔
25 نومبر سے قبل پنجاب میں کسانوں نے ریل روکو تحریک کی۔
25 نومبر سنہ 2020 کو کسانوں نے دہلی چلو تحریک کی کال دی۔
26 نومبر سنہ 2020 کو کسان اور پولیس آمنے سامنے ہوئے۔ پولیس نے کسانوں کو دہلی باڈر کی جانب بڑھنے سے روکا، کسانوں پر واٹر کنن اور آنسو گیس چھوڑے گئے۔
28 نومبر سنہ 2020 کو وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ کسان جب دہلی بارڈر سے ہٹیں گے تبھی سے ان سے بات چیت ہوگی۔ کسانوں کو دہلی کے بوراڑی جانا ہوگا۔ کسانوں نے ان مطالبات کو خارج کیا۔
3 دسمبر سنہ 2020 کو کسان اور مرکزی حکومت کے درمیان بات چیت کا پہلا دور شروع ہوا۔
5 دسمبر سنہ 2020 کو کسان اور مرکزی حکومت کے درمیان دوسرے دور کی بات چیت ہوئی۔
8 دسمبر سنہ 2020 کو کسانوں نے بھارت بند کی کال دی۔
9 دسمبر سنہ 2020 کو چوتھے دور کی بات چیت کے دوران زرعی قوانین میں ترمیم کو خارج کیا۔
11 دسمبر سنہ 2020 کو زرعی قوانین کی منسوخی کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی۔
7 جنوری سنہ 2021 کو سپریم کورٹ نے زرعی قوانین کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سننے پر رضامندی ظاہر کی۔
11 جنوری سنہ 2021 سپریم کورٹ نے کمیٹی تشکیل دینے کے لیے کہا
12 جنوری سنہ 2021 کو سپریم کورٹ نے تینوں زرعی پر اسٹیے لگادیا۔
26 جنوری سنہ 2021 کو یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے ٹریکٹر ریلی بلائی، اس دوران خوب ہنگامہ ہوا۔ کئی علاقوں میں کسانوں کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مبینہ طور پر لال قلعہ پر مذہبی جھنڈا لہرانے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔
2 فروری سنہ 2021 کو امریکی گلوکارہ ریحانہ، ماحولیاتی تبدیلی کی نوجوان کارکن گریٹا تھنبرگ کسانوں کی حمایت میں ٹوئٹ کیا تھا۔
5 فروری 2021 کو گریٹا تھنبرگ کی جانب سے کیے گئے ٹول کٹ پر ایف آئی آر درج کرائی گئی۔
9 فروری 2021 پنجاب اداکار دیپک سندھو کو 26 جنوری کو ہوئے تشدد معاملے پر گرفتار کرلیا گیا۔
14 فروری 2021 کو ٹول کٹ معاملے میں 21 سالہ ماحولیاتی کارکن دشا روی کو گرفتار کیا گیا۔
23 فروری 2021 کو دہلی کی ایک عدالت نے ٹول کٹ معاملہ میں دشا روی کو ضمانت دے دی۔
5 مارچ 2021 کو پنجاب اسمبلی میں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کی تجویز منظور دی۔
7 اگست 2021 کو پارلیمنٹ میں کسان تحریک پر اپوزیشن جماعتوں نے میٹنگ بلائی۔
28 اگست 2021 کو ہریانہ پولیس نے کرنال میں لاٹھی چارج کیا۔ کئی کسان زخمی ہوئے۔
7 ستمبر 2021 کو کسان کرنال احتجاج کے لیے پہنچے۔
11 ستمبر کو ہریانہ حکومت نے چارچ کی جانچ کرنے کی بات کہی۔
3 اکتوبر کو لکھیم پور کھیری میں ہونے والے تشدد میں چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہاں ہزاروں کسان مرکزی وزیر اجے مشرا اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ کسانوں نے الزام لگایا ہے کہ مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی کے بیٹے آشیش مشرا نے پرامن طور پر احتجاج کرنے والے کسانوں پر اپنی ایس یو وی گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں چار کسانوں کی موت ہو گئی۔
14 اکتوبر 2021 کو مرکزی وزیر کے بیٹے آشیش مشرا جیل بھیج دیے گئے۔
17 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے ریٹائر جج کو لکھیم پور کھیری تشدد معاملے کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے مقرر کیا۔
17 نومبر کو پنجاب وزیر اعلی چرنچیت جنی نے کہا کہ کسانوں کے خلاف درج کیے گئے سبھی ایف آئی آر واپس لیے جائیں گے۔
19 نومبر کو وزیر اعظم مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا۔