مغلیہ دور کی یہ قدیم مسجد آثارِ قدیمہ کے زیر انتظام ہے۔ اس مسجد میں نمازی 1952 سے ظہر، عصر، مغرب اور جمعہ کی نماز ادا کرتے آرہے ہیں۔ تاہم گزشتہ برس کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باعث مسجد میں نمازیوں کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ البتہ تمام پابندیاں تو ختم کردی گئیں لیکن نمازیوں کے لیے اب ٹکٹ لینا لازمی قرار دے دیا گیا۔
اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے دروازے پر ہی روک دیا جاتا ہے اور اسے ٹکٹ لینے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس معاملہ کی اطلاع دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان کو بھی ملی۔ جس کے بعد انہوں نے مسجد کا دورہ کیا اور معاملہ کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔
انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ نمازیوں کو روکا نہیں جائے گا اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی.
حالانکہ ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے جب مذکورہ مسجد کا معائنہ کیا تو یہ معلوم ہوا کہ ابھی بھی بغیر ٹکٹ کے نمازیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا جارہا ہے۔ نمائندہ نے خود ٹکٹ لے کر مسجد کا دورہ کیا۔
مزید پڑھیں:دہلی: مسجد کی مرمت کے لیے وزیر اعلیٰ کو خط
وہیں اس معاملے میں طول پکڑتا دیکھ کے مقامی ایم ایل اے شعیب اقبال کے فرزند محمد اقبال نے آثار قدیمہ کے افسران سے ملاقات کرکے اس معاملے کو حل کرانے کے لیے ایک میمورنڈم دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا کہ مسجد میں جانے والے نمازیوں کو ٹکٹ لینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور مستقبل میں اس طرح کی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔