طالبان نے اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے افغانستان کے دو نئے صوبوں پکتیکا اور میدان وردک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد طالبان کے زیر قبضہ صوبائی دار الحکومتوں کی تعداد 20 ہو چکی ہے۔ طالبان اب کابل سے محض 50 کلومیٹر دور رہ گئے ہیں۔ افغانستان کی راجدھانی کابل میں افرا تفری کا ماحول ہے۔ وہاں سفارتخانے بند ہونے لگے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس کی نئی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ طالبان 72 گھنٹوں میں کابل کو گھیر کر الگ تھلگ کرسکتے ہیں۔ اس کے پیش نظر امریکہ نے اپنے سفارتی عملے کو تمام حساس دستاویزات اور اشیا ضائع کرنے کا حکم دیا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں بتایا جا رہا ہے کہ دارالحکومت کابل طالبان کے کنٹرول میں جانے کے لیے تیار ہے۔ پولیس اہلکار وں کے فرار ہونے سے کابل کے تمام تھانے خالی ہو تے جارہے ہیں۔ ذاتی حفاظت کے لئے اہلکار اسلحہ بھی اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔
کابل کے حالات سے واضح ہے کہ کابل پر قبضے کا انحصار طالبان پر ہے کہ وہ دارالحکومت کب پہنچتے ہیں۔ امکان ہے کہ اگر طالبان حملہ کرتے ہیں تو قبضے کے چند گھنٹوں کے بعد کابل انتظامیہ کو کابل ایئر پورٹ کے ذریعہ کہیں اور منتقل کر دیا جائے گا۔
انٹیلی جنس کی رپورٹ کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکی سفارتی عملے کے انخلا میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ امریکی فوجی دستے کابل پہنچ چکے ہیں۔ افغانستان کے حالات کے پیش نظر نیٹو اور برطانوی حکومت کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ نیٹو ممالک وہاں ہر لمحے بدلتی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ ہر گھنٹے بعد صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
وہیں، ذرائع کے مطابق خبر ہے کہ ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان کی خود سپردگی کے بعد طالبان نے انہیں مصالحتی مشن پر کابل بھیجا ہے۔ اسی درمیان افغانستان کے نائب صدر امر صالح کے کابل سے فرار ہونے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:طالبان کا افغانستان کے 10ویں صوبے غزنی پر قبضہ کا دعویٰ
سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اپنے سفارتی عملے سے کہا ہے کہ ایسے سبھی مواد ضائع کر دیے جائیں جوکہ حساس ہو یا جس کا منفی پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو۔