سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ووٹروں سے وعدے کرنے سے نہیں روک سکتے،چیف جسٹس این۔ وی رمنا اور جسٹس جے۔ کی مہیشوری اور جسٹس ہیما کوہلی نے کہا کہ یہ سیاسی جماعتوں کو ووٹروں سے وعدے کرنے سے نہیں روک سکتا لیکن اس مسئلے پر غور کیا جانا چاہئے کہ کیا عوام کو صحت عامہ کی خدمات، پینے کے پانی جیسی ضروری اشیاء تک پہنچنے کے لئے مفت تحائف کے زمرے میں مانا جاسکتا ہے؟
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ درحقیقت یہ کچھ اسکیمیں ہیں جو شہریوں کا حق ہیں اور انہیں زندگی کا وقار دیتی ہیں،چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ "زیادہ سے زیادہ پیچیدہ" ہوتا جا رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ سچے وعدے کیا ہیں؟
SC says can’t stop political parties from making promises
بنچ نے کہاکہ ’’ہم سیاسی جماعتوں کو وعدے کرنے سے نہیں روک سکتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس پر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے کہ سچے وعدے کیا ہیں؟ کیا ہم مفت تعلیم کے وعدے، بجلی کی کچھ ضروری یونٹوں کو مفت کے طور پر بیان کر سکتے ہیں؟چیف جسٹس نے دیہی علاقوں میں روزگار فراہم کرنے کے لیے 'مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ' جیسی اسکیم کا بھی حوالہ دیا۔
جسٹس رمنا نے متعلقہ فریقوں سے کہاکہ ''منریگا ایک اسکیم ہے جو زندگی کو وقار دیتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پارٹیوں کے منتخب ہونے کی واحد بنیاد وعدے ہیں۔ کچھ وعدے کرتے ہیں پھر بھی منتخب نہیں ہوتے۔ آپ سب اپنی رائے دیں پھر غور و فکر کے بعد ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ اپنےانتخابی منشور میں مفت تحائف کے وعدوں پر پابندی لگانے یا ایسی سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن رد کرنے کا حکم دینے کی عدالت عظمی سے اپیل کی ہے۔ مرکزی حکومت نے ان کی مفاد عامہ کی عرضی کی حمایت کی ہے۔
عام آدمی پارٹی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ اے۔ ایم سنگھوی نے مسٹر اپادھیائے کی عرضی کی مخالفت کی۔ ڈی ایم کے کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ پی ولسن نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک ماہر پینل کے قیام کی تجویز کی مخالفت کی،مسٹر ولسن نے ڈی ایم کے کی جانب سے کہاکہ "ہندوستان ایک سوشلسٹ فلاحی ریاست ہے۔ فلاحی اقدامات ہونے چاہئیں۔ ہم کمیٹی قائم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں:SC on Freebies During Elections: انتخابات میں لبھاونے وعدوں کا جائزہ لیا جائے: سپریم کورٹ
عام آدمی پارٹی نے بھی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش کانگریس لیڈر جیا ٹھاکر نے بھی پی آئی ایل کی مخالفت کرتے ہوئے عرضی داخل کی۔
سپریم کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت 22 اگست کو کرے گی۔
یو این آئی