نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ملک سے بغاوت کے قانون کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ملک سے بغاوت کے قانون یعنی 124A کے تحت دوبارہ غور کرنے تک کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہیے۔ مرکز اس سلسلے میں ریاستوں کو ایک ڈائرکٹری جاری کرے گا۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا ہے کہ زیر التوا مقدمات پر جمود برقرار رکھا جائے۔ عدالت نے کہا ہے کہ جو لوگ بغاوت کے الزام میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور اس الزام میں جیل میں ہیں، وہ مناسب عدالتوں میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ اب اس معاملے کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔ The Supreme Court banned the use of the Sedition Law
ملک سے بغاوت کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والے معاملے کی بدھ کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ریاستی حکومتوں کو جاری کی جانے والی ہدایات کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ ان کے مطابق ریاستی حکومتوں کو واضح ہدایت ہوگی کہ ضلع پولیس کیپٹن یعنی ایس پی یا اعلیٰ سطح کے افسر کی منظوری کے بغیر بغاوت کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج نہیں کی جائے گی۔ اس دلیل کے ساتھ سالیسٹر جنرل نے عدالت سے کہا کہ فی الحال اس قانون پر روک نہیں لگنی چاہیے۔
- مزید پڑھیں:۔ کنگنا کے خلاف غدار وطن کا مقدمہ درج
سالیسٹر جنرل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پولیس افسر بغاوت کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی حمایت میں کافی وجوہات پیش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک قانون پر نظر ثانی نہیں کی جاتی اس کا متبادل علاج ممکن ہے۔
وہیں اس معاملے میں مرکز نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے بغاوت کے قانون پر دوبارہ غور کرنے اور دوبارہ جانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہ سیڈیشن ایکٹ کی دفعہ 124 اے کی درستگی پر دوبارہ غور کرے گی۔ اس لیے جب تک اس کی درستگی کا جائزہ نہیں لیا جاتا اس معاملے کی سماعت نہ کریں۔ لیکن عدالت نے مرکز کے اس پہلو کو قبول نہیں کیا اور قانون پر روک لگا دی ہے۔