خانقاہ میں سیاہ قلب آتے ہیں اور روشن قلب لیکر جاتے ہیں۔ یہاں ایسے لوگوں کو اللہ سے لو لگائے جانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ برے کاموں سے توبہ کروائی جاتی ہے۔ صراط مستقیم پر چلنے کا عہد و پیماں لیے جاتے ہیں۔ مومن والی زندگی گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جس سے انسان قلبی طور پر مطمئن ہوتا ہے اور آگے کی زندگی میں ترقی کرتا ہے۔
مذکورہ باتیں خانقاہ منیر شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں بتائی۔ سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی نے کہا کہ خانقاہ دراصل دلوں کی صفائی کا مرکز ہے۔
خانقاہ کے دروازے بلا تفریق تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ یہاں کسی طرح کی ذات پات اور فرقہ بندی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ خانقاہ کی عظمت ہر طرح کے لوگوں کے دلوں پر نقش کی ہوئی ہے۔
اسے ذکر و اذکار کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کا ارشاد ہے کہ قلب گویا کہ پرندہ ہے بدن کے پنجرہ میں موتی ہے۔
ڈبہ میں مال ہے صندوق میں بس اعتبار پرندہ کا ہے پنجرہ کا نہیں۔ اعتبار موتی کا ہے ڈبہ کا نہیں بس یہی حال انسان کے دلوں کا ہے۔
اللہ نے اسے کتنا بیش قیمتی بنایا ہے جس کا اندازہ انسان کبھی کبھی خود بھی نہیں لگاسکتا، مولانا سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی نے کہا کہ آج انسانوں کے دلوں سے اللہ کی محبت ختم ہوچکی ہے۔
مزید پڑھیں:لوگوں کا مزاج ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں: بہار وزیراعلیٰ
اللہ نے جو ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا ہے ہم اس سے کوسوں دور ہوگئے ہیں۔ آج ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔