گزشتہ ہفتے مدراس ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے تُند و تیز تاثرات کے اظہار پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ناراض ہونے کا حق ہے، لیکن اسے ان تاثرات کی میڈیا کوریج روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح سے اس کا موقف مزید کمزور ثابت ہورہا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ہائی کورٹ کے تاثرات کی میڈیا کوریج روکنے کی درخواست مسترد کردی ہے۔ کمیشن کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ نے کہا کہ عدالت تک سب کی رسائی ہے اور یہ بات ’’آئینی آزادی کا سنگِ بنیاد ہے‘‘۔ انٹرنیٹ نے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ میں انقلابی تبدیلی لائی ہے اور اس کی وجہ سے عدالتی کارروائی کی فوری رپورٹنگ ہوجاتی ہے اور یہ بات اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بہتر ہے۔ اس لئے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔
ہائی کورٹ کے ججوں نے کمیشن کے افسران سے پوچھا تھا کہ اُنہوں نے کووِڈ پروٹوکول کا جائزہ لئے بغیر ہی سیاسی جماعتوں کو الیکشن مہم چلانے کی اجازت کیوں دی تھی؟ ججوں نے کمیشن کو ایک غیر ذمہ دار ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان افسران پر قتل کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا ججوں کی جانب سے ادا کئے گئے ان ’’بے احتیاط الفاظ‘‘ کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہے اور اس نے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرتے ہوئے ان الفاظ کو حذف کرانے کی درخواست کی۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کی درخواست پر سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ اور ایم آر شاہ پر مشتمل بینچ کی جانب سے دیئے گئے ابتدائی تاثرات قابل ذکر ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے تاثرات پر کسی قسم کا امتناع عائد کرکے اسے پست ہمت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ سنوائی کے دوران وکلا اور جج صاحبان کا مکالمہ عوامی نکتہ نظر سے حوصلہ بخش ہے اور یہ ایک پُرجوش عدالتی نظام کی عکاسی کرتا ہے۔
آخر میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹس نے کووِڈ 19 وبا کے حوالے سے ایک قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ تاہم مدراس ہائی کورٹ کے تاثرات ’’سخت‘‘ ہیں اور ایسے تاثرات دیتے وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ تاہم جہاں تک میڈیا کوریج کی بات ہے، اس حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے عدالتی کارروائی کی میڈیا کوریج روکنے کی درخواست کا کوئی جواز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے عدالت میں یہ استدلال پیش کیا گیا تھا کہ الیکشن منعقد کرانے کے حوالے سے کمیشن حکومت کا متبادل نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا کام صرف رہنما قواعد و ہدایات جاری کرنا ہوتا ہے اور ان قواعد کو نافذ کرانے کا کام ریاستوں کا ہوتا ہے۔ اگر ان قواعد کی کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کے لئے کمیشن کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ عدالت کے مطابق یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ کمیشن متواتر طور پر ریاستوں کے افسران کے تبادلے کرواتا ہے۔ اس نے 9 مارچ کو ایک حکم نامے کے ذریعے مغربی بنگال کے ڈی جی پی کو تبدیل کرکے اس کی جگہ دوسرے افسر کو تعینات کرایا اور اب کمیشن دعویٰ کررہا ہے کہ وہ حکمرانی کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتا ہے۔ مزید یہ کہ یہی کمیشن جس کے پاس الیکشن کی تاریخیں طے کرنے سے لیکر ضرورت پڑنے پر انہیں ملتوی کرنے تک کا اختیار ہے اور پہلے دن سے ہی حکومت پر نظر گزر رکھنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ اب یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اگر اس کے جاری کردہ قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو یہ اس ضمن میں بے بس ہے۔
یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے کہ شہریوں کی جانب سے اپنے حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال اور آزادنہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا کام موجودہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے افسرشاہوں کے ہاتھوں میں محفوط ہے؟ الیکشن کمیشن کا رویہ، عدالت عظمیٰ کے سامنے اس کا استدلال اور میڈیا پر قدغن لگانے کی اس کی کوششوں کی وجہ سے آئین بنانے والے اپنی قبروں میں بے قرار ہوئے ہونگے۔
آئین ساز اسمبلیوں میں ہوئے بحث و مباحثے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ آئین مرتب کرنے والے بانیوں نے دفعہ 324 کے تحت الیکشن کمیشن آف انڈیا کو کس طرح سے ایک خود اختیار ادارہ بنایا ہے اور چیف الیکشن کمیشن کو آئین کی دفعہ 324(5) کے تحت وہی قانونی اختیار دیا ہے جو سپریم کورٹ کے ایک جج کو ہوتa ہے۔ یہ سب اس لئے کیا گیا ہے تاکہ وہ بلا خوف اپنا کام کرتے ہوئے شہریوں کے حق رائے دہی کی حفاظت کرسکے اور ملک کے جمہوری نظام کو مضبوط کرسکے۔ اس کے علاوہ آئین کی دفعہ 324 کے تحت اسے ’’نگرانی کرنے، ہدایات دینے اور الیکشن کو کنٹرول کرنے‘‘ کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ کیا ان سب کے باوجود الیکشن کمیشن آف انڈیا کو یہ جواز دینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ’’میں بے بس ہوں‘‘۔
نریندرمودی سرکار پر ایک طعنہ یہ بھی کسا جاتا ہے کہ اس نے منظور نظر لوگوں کو بطور الیکشن کمشنرز بنایا ہے تاکہ یہ سرکار الیکشن کمیشن آف انڈیا کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکے۔ راقم الحروف کو اس ضمن میں حقائق سے آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی اس الزام کے بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے۔ تاہم راقم الحروف نے اُس وقت سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو دیکھتا آیا ہے، جب ایس ایل شَکدھر ( Shakdhar ) چیف الیکشن کمشنر (مرارجی دیسائی، چرن سنگھ اور اندرا گاندھی کے ادوار میں) تھے۔ اُن کے بعد آر وی ایس پیری شاستری (وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور میں ) چیف الیکشن کمشنر بنے۔ اُن کے بعد ٹی این سیشن (چندر شیکھر کی حکومت میں) چیف الیکشن کمشنر تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر حکومت چیف الیکشن کمشنر کو تعینات کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہر بڑے الیکشن میں حکومت کو انتخابات کے انعقاد کی تاریخ، انتخابی مراحل، اور سینٹرل فورسز کی تعیناتی کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر سامنے لانے کا اختیار ہوتا ہے۔ لیکن بہر حال جب پولنگ کی تاریخیں طے کرنے کا اصل مرحلہ آجاتا ہے تو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار چیف الیکشن کمشنر کو ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کا کام آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کرانا ہوتا ہے اور اس ضمن میں اسے اپنے حساب سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر انتخابات کے انعقاد میں کوئی گڑبڑ ہوئی اور لوگ سوال پوچھنے لگیں گے تو ان سوالات کا جواب دینے کی پابند حکومت نہیں بلکہ چیف الیکشن کمیشن ہے۔
فی الوقت جو سب سے متنازعہ بات ہے وہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال میں ( اسمبلی کی 294 سیٹوں کے لئے) آٹھ مراحل پر مشتمل انتخابات کرائے۔ جبکہ اس کے برعکس 6 اپریل کو تامل ناڈو میں (اسمبلی کی 234 سیٹوں کے لئے)، کیرلا کی (140 اسمبلی سیٹوں کے لئے) اور پانڈیچری کی (30 اسمبلی سیٹوں کے لئے) ایک ہی دن میں انتخابات منعقد کرائے گئے۔ اسی دن آسام میں 40 اسمبلی سیٹوں کے لئے بھی تیسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چیف الیکشن کمیشن نے ان ساری ریاستوں میں کل 444 اسمبلی سیٹوں کے لئے ایک ہی دن میں انتخاب منعقد کرایا لیکن مغربی بنگال کی 294 سیٹوں کے لئے آٹھ مراحل پر پولنگ منعقد کرائی۔ اس کا جواز کیا ہے؟ کمیشن کو اس کا جواب دینا چاہیے۔ درایں اثنا اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی کووِڈ متاثرین کی روزانہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی لیکن اس کے باوجود چیف الیکشن کمیشن کو خطرہ نظر نہیں آیا۔ مدراس ہائی کورٹ نے جب اسے کھری کھری سُنادی تب ہی اس نے کچھ جزوی اقدامات کئے۔ اس کے باوجود اس کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کو چیف الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کے بارے میں اس طرح کے تاثرات نہیں دینے چاہیے تھے۔ چیف الیکشن کمیشن کے استدلال میں دوسری غلطی یہ ہے کہ یہ خود کو ہائی کورٹ کے ہم پلہ بتا رہا ہے، جو کہ مضحکہ خیز ہے۔ آئین نے ہائی کورٹس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قانون نافذ کرائیں اور چیف الیکشن کمیشن سمیت کسی بھی ادارے کے خلاف درخواست کی سماعت کرسکے۔ چیف الیکشن کمیشن کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس لئے اسے عزت کے ساتھ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنا چاہیے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو اُن لوگوں کے ذہنوں میں ہیں، جو ملک کے اداروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ بات حیران کن ہے کہ ایک اہم آئینی ادارہ جس کا کام جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے، چاہتا ہے کہ اس کے کام کرنے کے طریقہ کار پر کوئی بحث و مباحثہ نہ ہو۔ سپریم کورٹ نے سنوائی کے دوران یہ تاثر بھی دیا کہ اداروں کو جمہوریت کی بقا کے لئے مضبوط اور متحرک ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی ہے۔