دہلی: قومی دارالحکومت دہلی میں مرکزی حکومت نے دہلی وقف بورڈ سے منسلک 123 جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان جائیدادوں میں مساجد، قبرستان اور درگاہیں شامل ہیں تاہم اب مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین اور عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ امانت اللہ خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ مرکزی حکومت کو ان جائیدادوں پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی دہلی وقف بورڈ نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے لینڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکزی حکومت پر دہلی وقف بورڈ کی جائیداد چھیننے کا الزام لگایا گیا ہے۔ امانت اللہ خان نے کہا کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ مرکزی حکومت وقف بورڈ کی جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو رکنی کمیٹی کی رپورٹ پر روک لگانے کے لیے دہلی وقف بورڈ پہلے ہی عدالت میں عرضی داخل کر چکی ہے لیکن یہ معاملہ زیر التوا ہے۔ اسی لیے ہم نے دوبارہ مرکزی حکومت کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا رُخ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کا مقصد دہلی وقف بورڈ کو ختم کرنا ہے اور تجاوزات کرنے والوں کو ان جائیدادوں میں داخلہ دینا ہے۔ وقف بورڈ کی 123 جائیدادوں میں سے 90 فیصد جائیدادوں میں قبرستان، درگاہیں اور مساجد شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 12 اپریل 2022 کو بورڈ نے ہائی کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کاروائی نہ کرنے کی بات کہی تھی، ایسے میں مرکزی حکومت ہر اصول اور عدالت کو بالائے طاق رکھ کر وقف بورڈ کے حقوق چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 2024 کے انتخابات کی تیاری کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ آج کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ 1911 اور 1915 میں جب برٹش گورنمنٹ نے دہلی کو راجدھانی بنانے کا فیصلہ کیا اور سرکاری دفاتر اور سیکرٹریٹ بنانے کے لیے جگہ کی نشاندہی کی تب ایک سنگل نوٹیفیکیشن کے ذریعے ان تمام جائیدادوں کو اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ اس نوٹیفیکیشن میں جو جگہیں شامل ہیں، ان میں درگاہیں، مساجد اور قبرستان بھی شامل تھے، جن لوگوں کی ذاتی جگہیں اس میں داخل کی گئی تھی، انکو معاوضہ دے دیا گیا تھا لیکن مسجد کے متولیان نے مسجد اور درگاہوں کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں:۔ Delhi Waqf Properties مرکزی حکومت نے 123 وقف املاک واپس لے لی
اس کے بعد 1970 کی دہائی میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے آئی اے ایس افسر مظفر حسین برنی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کو عرف عام میں برنی کمیٹی کہا جاتا ہے۔ کمیٹی نے کچھ سفارشات بھی مرکزی حکومت کو پیش کی۔ 1980 کی دہائی میں اس وقت کی کانگریس کی مرکزی سرکار نے ان تمام 123 وقف جائیدادوں کو دہلی وقف بورڈ کو واپس کرنے کے بجائے ایک روپے کی سالانہ لیز پر دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ یہی وہ نقطہ تھا جس پر وشو ہندو پریشد کو عدالت سے اسٹے ملا۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمانوں کو یہ تمام وقف جائیدادیں جس میں 90 فیصد مساجد، درگاہیں اور قبرستان ہیں۔ مسلمانوں کو معاوضہ کے ساتھ واپس کی جاتی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ اس وقت کی کانگریس سرکار نے تمام جائیداد ایک روپیہ سالانہ کی لیز پر دہلی وقف بورڈ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔