ETV Bharat / bharat

Grave Of Imdad Asar In Gaya گیا میں ایک ہندو کنبہ معروف ادبی شخصیت کی قبر کا محافظ

ضلع گیا میں معروف ادبی شخصیت امداد امام اثر کی قبر کی دیکھ بھال کانگریس کے رہنما اودھیش سنگھ کرتے ہیں. آج ان کی قبر پر اودھیش سنگھ اور ان کے کنبہ نے ہولی سے پہلے قبرستان میں فاتحہ خوانی کراکر عقیدت کا اظہار کیا۔ Famous Urdu personality Imdad asar's grave in gaya

author img

By

Published : Mar 9, 2023, 1:55 PM IST

اردو کی معروف شخصیت امداد اثر کے قبر کا محافظ ایک ہندو کنبہ ہے
اردو کی معروف شخصیت امداد اثر کے قبر کا محافظ ایک ہندو کنبہ ہے
اردو کی معروف شخصیت امداد اثر کے قبر کا محافظ ایک ہندو کنبہ ہے

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا کے مانپور میں ایک ہندو کنبہ صبح اٹھتے ہی پوجا پاٹھ کے ساتھ اپنے گھر کے احاطے میں واقع قبروں کی زیارت کرتا ہے۔ یہ خاندان سابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ کا ہے، اودھیش سنگھ جس حویلی میں رہتے ہیں اس حویلی کے احاطے کے پچھلے حصے میں اردو ادب کی ایک معروف شخصیت شمس العلماء امداد امام اثر اور انکے کنبہ کے دیگر افراد کی قبریں موجود ہیں۔ ساٹھ برسوں سے اودھیش سنگھ کا کنبہ اس قبرستان کے محافظ ہیں چونکہ یہ اسلیے خاص ہے کیونکہ یہاں محلے میں ایک بھی مسلم طبقے کا گھر نہیں ہے لیکن شب برات کے موقع پر یہاں آس پڑوس کے محلوں کے مسلم باشندے پہنچ کر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ یہاں شب برات کے موقع پر اودھیش سنگھ اور انکے اہل خانہ کی طرف سے پہلی چادر دوپہر بعد نماز ظہر پیش کی جاتی ہے اور پھر دیر شام تک لوگوں کی آمد ہوتی رہتی ہے حالانکہ زیادہ تر عام مسلمانوں کو اسکا علم نہیں ہے کہ یہ قبریں کن کی ہیں اور انکی شخصیت کیوں خاص ہے ؟ اہل علاقہ ہندو ہو یا مسلمان سبھی امداد امام اثر کو ' نواب صاحب ' کے نام سے جانتے ہیں۔

دراصل کانگریس کے سنیئر رہنما اور سابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ جس حویلی میں رہتے ہیں وہ حویلی ساٹھ برس قبل اردو کے معروف ناقد، شاعر، محقق اور مصنف امداد امام اثر کی تھی۔ اودھیش سنگھ کہتے ہیں کہ یہ حویلی نواب امداد اثر کی تھی۔ آزادی کے کچھ برسوں بعد امداد امام اثر کے خاندان کے لوگوں نے انکے والد کو فروخت کر دیا تھا، انکے والد نے سنہ 1960میں یہ حویلی خریدی تھی جس وقت یہ حویلی ان کے والد نے خریدی تھی انہیں وصیت کی تھی کہ نواب صاحب اور ان کے گھر کے لوگوں کی قبروں کو اپنے آباو و اجداد کی وراثت سمجھ کر سنبھالنا، اسی روایت کو آج تک یہ لوگ قائم کئے ہوئے ہیں اور اب انہوں نے اس کی ذمہ داری اپنے بیٹے ڈاکٹر سشی شیکھر سنگھ کو سونپی ہے کہ وہ اس قبرستان کی حفاظت زندگی بھر کریں گے۔
اودھیش سنگھ نے قبروں کی حفاظت سے متعلق سوال پر کہا کہ ان کی دعاؤں کی وجہ سے وہ اتنے بڑے مقام پر پہنچے ہیں اور ان کی آستھا ان سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو سیکولرازم اور بھارت کی خوبصورتی ہے۔

قبرستان کے احاطے میں موجود مولانا عبد الوکیل صابری نے کہا کہ خاص بات یہ ہے کہ آج کے ناخوشگوار اور مذہبی منافرت کے دور میں بھی کوئی اپنے گھر کے احاطے کے ایک حصے میں قبروں کو آباد رکھے ہے تو واقعی مثالی کام ہے اور یہ گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال ہے۔ بتادیں کہ اودھیش سنگھ کانگریس کے ایک سینئر رہنما ہیں اور پانچ مرتبہ رکن اسمبلی کے علاوہ مختلف وزرات کی ذمہ داری انجام دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر سشی شیکھر نے کہا کہ اس ملک کی یہی خوبصورتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی چیزوں کی حفاظت اور نگہبانی کرتے رہیں اور یہی چیزیں ہمیں منفرد بناتی ہیں۔ والد نے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ عقیدت و احترام کے ساتھ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں:۔ خبر کا اثر: مرحوم انورعلی کے اہل خانہ کو امداد

امداد اثر کون تھے:۔

اردو ادب میں جن شخصیات نے تنقید کے آغاز کیا، ان میں شمس العلماء نواب سید امداد امام اثر کا نام سرفہرست ہے۔ ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بلند پائے کے شاعر بھی تھے، جن کی تخلیقات میں ایک معروف تخلیق کاشف الحقائق بھی ہے۔ اثر کی پیدائش 17 اگست 1849کو بہار کے پٹنہ ضلع کے کراپر سرائے کے ایک ممتاز علمی گھرانہ شمس العلماء سید وحیدالدین بہادر چیف جسٹس کے یہاں ہوِئی۔ امام اثر ماہر قانون ہونے کے ساتھ ساتھ پٹنہ کالج میں تاریخ اور عربی کے پروفیسر تھے۔ وہ پٹنہ سے گیا کے مرارپور میں پہلے آباد ہوئے اور بعد میں انہوں نے اپنا ایک عالیشان مکان مفصل تھانہ حلقہ میں واقع مانپور میں تعمیر کرایا اور وہیں قیام پذیر ہوئے۔ انکے علمی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں انہیں شمس العلما کا خطاب ملا جبکہ انگریزی حکومت نے انہیں نواب کے خطاب سے نوازا۔ 11 مارچ سنہ 1933کو انہوں نے آخری سانس لی اور انکی تدفین انکی حویلی کے پچھلے حصے میں ہوئی جو آج تک صحیح سلامت اور محفوظ ہے۔

واضح رہے کہ امداد امام اثر کی قبر کے ساتھ دیگر پانچ اور قبریں ہیں، جن کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ قبریں امداد اثر کے رشتے داروں کی ہیں۔ امداد اثر کے رشتے داروں نے حویلی کو فروخت کردیا تھا لیکن قبرستان کے حصے کو فروخت نہیں کیا تاہم آج تک اودھیش سنگھ اور محلے کے لوگ اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ قبرستان قریب ایک کھٹے کی اراضی پر ہے۔ اودھیش سنگھ نے قبرستان کے حصے پر دس فٹ سے زیادہ اونچی باونڈری بھی کرا رکھی ہے۔ ہر برس شب برات کے موقع پر رنگ و روغن کے ساتھ وہ فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کراتے ہیں۔ قبرستان کے احاطے میں ایک نل بھی لگوایا ہے تاکہ یہاں آنے والوں کو وضو کرنے میں پریشانی نہیں ہو۔ قبرستان کو شب برات کے موقع لائٹ اور قمقموں سے سجاتے ہیں۔ یہاں دیکھ بھال کے لیے اپنے ایک اسٹاف کو بھی تعینات کر رکھا ہے۔

اردو کی معروف شخصیت امداد اثر کے قبر کا محافظ ایک ہندو کنبہ ہے

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا کے مانپور میں ایک ہندو کنبہ صبح اٹھتے ہی پوجا پاٹھ کے ساتھ اپنے گھر کے احاطے میں واقع قبروں کی زیارت کرتا ہے۔ یہ خاندان سابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ کا ہے، اودھیش سنگھ جس حویلی میں رہتے ہیں اس حویلی کے احاطے کے پچھلے حصے میں اردو ادب کی ایک معروف شخصیت شمس العلماء امداد امام اثر اور انکے کنبہ کے دیگر افراد کی قبریں موجود ہیں۔ ساٹھ برسوں سے اودھیش سنگھ کا کنبہ اس قبرستان کے محافظ ہیں چونکہ یہ اسلیے خاص ہے کیونکہ یہاں محلے میں ایک بھی مسلم طبقے کا گھر نہیں ہے لیکن شب برات کے موقع پر یہاں آس پڑوس کے محلوں کے مسلم باشندے پہنچ کر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ یہاں شب برات کے موقع پر اودھیش سنگھ اور انکے اہل خانہ کی طرف سے پہلی چادر دوپہر بعد نماز ظہر پیش کی جاتی ہے اور پھر دیر شام تک لوگوں کی آمد ہوتی رہتی ہے حالانکہ زیادہ تر عام مسلمانوں کو اسکا علم نہیں ہے کہ یہ قبریں کن کی ہیں اور انکی شخصیت کیوں خاص ہے ؟ اہل علاقہ ہندو ہو یا مسلمان سبھی امداد امام اثر کو ' نواب صاحب ' کے نام سے جانتے ہیں۔

دراصل کانگریس کے سنیئر رہنما اور سابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ جس حویلی میں رہتے ہیں وہ حویلی ساٹھ برس قبل اردو کے معروف ناقد، شاعر، محقق اور مصنف امداد امام اثر کی تھی۔ اودھیش سنگھ کہتے ہیں کہ یہ حویلی نواب امداد اثر کی تھی۔ آزادی کے کچھ برسوں بعد امداد امام اثر کے خاندان کے لوگوں نے انکے والد کو فروخت کر دیا تھا، انکے والد نے سنہ 1960میں یہ حویلی خریدی تھی جس وقت یہ حویلی ان کے والد نے خریدی تھی انہیں وصیت کی تھی کہ نواب صاحب اور ان کے گھر کے لوگوں کی قبروں کو اپنے آباو و اجداد کی وراثت سمجھ کر سنبھالنا، اسی روایت کو آج تک یہ لوگ قائم کئے ہوئے ہیں اور اب انہوں نے اس کی ذمہ داری اپنے بیٹے ڈاکٹر سشی شیکھر سنگھ کو سونپی ہے کہ وہ اس قبرستان کی حفاظت زندگی بھر کریں گے۔
اودھیش سنگھ نے قبروں کی حفاظت سے متعلق سوال پر کہا کہ ان کی دعاؤں کی وجہ سے وہ اتنے بڑے مقام پر پہنچے ہیں اور ان کی آستھا ان سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو سیکولرازم اور بھارت کی خوبصورتی ہے۔

قبرستان کے احاطے میں موجود مولانا عبد الوکیل صابری نے کہا کہ خاص بات یہ ہے کہ آج کے ناخوشگوار اور مذہبی منافرت کے دور میں بھی کوئی اپنے گھر کے احاطے کے ایک حصے میں قبروں کو آباد رکھے ہے تو واقعی مثالی کام ہے اور یہ گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال ہے۔ بتادیں کہ اودھیش سنگھ کانگریس کے ایک سینئر رہنما ہیں اور پانچ مرتبہ رکن اسمبلی کے علاوہ مختلف وزرات کی ذمہ داری انجام دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر سشی شیکھر نے کہا کہ اس ملک کی یہی خوبصورتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی چیزوں کی حفاظت اور نگہبانی کرتے رہیں اور یہی چیزیں ہمیں منفرد بناتی ہیں۔ والد نے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ عقیدت و احترام کے ساتھ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں:۔ خبر کا اثر: مرحوم انورعلی کے اہل خانہ کو امداد

امداد اثر کون تھے:۔

اردو ادب میں جن شخصیات نے تنقید کے آغاز کیا، ان میں شمس العلماء نواب سید امداد امام اثر کا نام سرفہرست ہے۔ ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بلند پائے کے شاعر بھی تھے، جن کی تخلیقات میں ایک معروف تخلیق کاشف الحقائق بھی ہے۔ اثر کی پیدائش 17 اگست 1849کو بہار کے پٹنہ ضلع کے کراپر سرائے کے ایک ممتاز علمی گھرانہ شمس العلماء سید وحیدالدین بہادر چیف جسٹس کے یہاں ہوِئی۔ امام اثر ماہر قانون ہونے کے ساتھ ساتھ پٹنہ کالج میں تاریخ اور عربی کے پروفیسر تھے۔ وہ پٹنہ سے گیا کے مرارپور میں پہلے آباد ہوئے اور بعد میں انہوں نے اپنا ایک عالیشان مکان مفصل تھانہ حلقہ میں واقع مانپور میں تعمیر کرایا اور وہیں قیام پذیر ہوئے۔ انکے علمی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں انہیں شمس العلما کا خطاب ملا جبکہ انگریزی حکومت نے انہیں نواب کے خطاب سے نوازا۔ 11 مارچ سنہ 1933کو انہوں نے آخری سانس لی اور انکی تدفین انکی حویلی کے پچھلے حصے میں ہوئی جو آج تک صحیح سلامت اور محفوظ ہے۔

واضح رہے کہ امداد امام اثر کی قبر کے ساتھ دیگر پانچ اور قبریں ہیں، جن کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ قبریں امداد اثر کے رشتے داروں کی ہیں۔ امداد اثر کے رشتے داروں نے حویلی کو فروخت کردیا تھا لیکن قبرستان کے حصے کو فروخت نہیں کیا تاہم آج تک اودھیش سنگھ اور محلے کے لوگ اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ قبرستان قریب ایک کھٹے کی اراضی پر ہے۔ اودھیش سنگھ نے قبرستان کے حصے پر دس فٹ سے زیادہ اونچی باونڈری بھی کرا رکھی ہے۔ ہر برس شب برات کے موقع پر رنگ و روغن کے ساتھ وہ فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کراتے ہیں۔ قبرستان کے احاطے میں ایک نل بھی لگوایا ہے تاکہ یہاں آنے والوں کو وضو کرنے میں پریشانی نہیں ہو۔ قبرستان کو شب برات کے موقع لائٹ اور قمقموں سے سجاتے ہیں۔ یہاں دیکھ بھال کے لیے اپنے ایک اسٹاف کو بھی تعینات کر رکھا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.