ETV Bharat / bharat

Book 'Operation End' Released: 'آپریشن خاتمہ' حضرت بل کو عسکریت پسندوں سے آزاد کرانے کا بیانیہ ہے - سرجیکل اسٹرائک سے متعلق کتاب کا رسم اجرا

دو صحافیوں آرسی گنجو اور اشوینی بھٹناگر کی تصنیف کردہ کتاب 'آپریشن خاتمہ' Book, Operation End مارچ 1996 میں سری نگرکی تاریخی حضرت بل مسجد کا محاصرہ کرنے والے عسکریت پسندوں سے آزاد کرانے کے لیے شروع کی گئی مہم کی زندہ کہانی ہے۔

'آپریشن خاتمہ' حضرت بل کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کا بیانیہ ہے
'آپریشن خاتمہ' حضرت بل کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کا بیانیہ ہے
author img

By

Published : Jan 16, 2022, 5:19 PM IST

Updated : Jan 16, 2022, 6:49 PM IST

پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار ستمبر 2016 میں بھارتی فوج کی سرجیکل اسٹرائک Indian Army Surgical Strike جگ ظاہر ہے لیکن اس سے تقریباً ایک دہائی قبل وادی کشمیر میں حضرت بل مسجد کو عسکریت پسندوں سے آزاد کرانے کے لیے یہ مہم شروع کی گئی تھی اور ’آپریشن خاتمہ‘ 'Operation Endاسی مہم کا بیان ہے۔

دو صحافی آر سی گنجو اور اشوینی بھٹناگر کی تصنیف کردہ کتاب 'آپریشن خاتمہ' مارچ 1996 میں سرینگر کی تاریخی حضرت بل مسجد کا محاصرہ کرنے والے عسکریت پسندوں سے آزاد کرانے کے لیے شروع کی گئی مہم کی زندہ کہانی ہے۔ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) کی اس کارروائی میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے 22 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

اس سے قبل 1993 میں جے کے ایل ایف کے ایک گروپ نے درگاہ حضرت بل پر قبضہ کر لیا تھا اور 32 دن کی بات چیت اور بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں کے بعد عسکریت پسندوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

مارچ 1996 میں جب جے کے ایل ایف کے کمانڈر شبیر صدیقی اور ان کے 20 سے زیادہ ساتھی عسکریت پسندوں نے درگاہ حضرت بل پر قبضہ کرلیا تھا تب 'آپریشن خاتمہ' شروع کیا گیا تھا۔ ایس او جی چیف اور ایس ایس پی فاروق خان درگاہ حضرت بل کو آزاد کرانے کے لیے پرعزم تھے۔

کتاب میں ایس ایس پی فاروق خان کے خطرات مول لینے، اعلیٰ حکام کو راضی کرنے اور تاریخی مہم شروع کرنے کے سلسلے کی تفصیلات ہیں۔

مزید پڑھیں:۔ وزیراعظم سرجیکل اسٹرائک کا ثبوت دیں۔ کمل ناتھ

مصنفوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ'پہلے عسکریت پسندوں کو مرکزی درگاہ چھوڑنے اور ملحقہ عمارت میں جانے کے لیے آمادہ کیا گیا تھا۔ جب بات چیت جاری تھی، اسی دوران صدیقی کو پی او کے سے جے کے ایل ایف کے سربراہ امان اللہ خان کے ذریعہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ واپس مسجد میں چلے جائیں۔ پیغام کوانٹرسیپٹ کیا گیا اور امان اللہ خان کی قیادت میں ایس او جی نے عسکریت پسندوں کا محاصرہ کیا۔

عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے چیلنج دیا گیا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد ایس او جی نے عسکریت پسندوں کی اس حرکت کا منہ توڑ جواب دیا۔ ایس او جی کی اس 'آپریشن خاتمہ' مہم میں 22 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

کشمیر کا احاطہ کرنے والے گنجو اور بھٹناگر نے کتاب میں 'آپریشن خاتمہ' کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ مصنفین نے کہا کہ 'آپریشن خاتمہ' کی اس بنیادی حقیقت کو واضح کیا ہے کہ جمہوری ڈھانچے کے اندر'عسکریت پسندوں' کے ساتھ بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بالآخر بپھرے ہوئے بیل کو سینگوں سے پکڑنا اور انہیں زمین پر ٹکانا یا پٹخنا ہوگا اور اس تناظر میں سیاست دانوں کو اس سے دور ہونا چاہیے۔

گنجو نے یو این آئی کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کا واحد حل انسداد دہشت گردی آپریشن ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے ذریعے شکایات کے گفت و شنید کے حل کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ مذہبی جنونیت میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میری بات مانو ورنہ گولی مار دوںگا، وہ یہی کہتے ہیں۔

مصنفین نے بتایا کہ یہ کتاب ایک بین الاقوامی فلم پروڈکشن ہاؤس نے بھی ویب سیریز بنانے کے لیے حاصل کی ہے۔

یو این آئی

پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار ستمبر 2016 میں بھارتی فوج کی سرجیکل اسٹرائک Indian Army Surgical Strike جگ ظاہر ہے لیکن اس سے تقریباً ایک دہائی قبل وادی کشمیر میں حضرت بل مسجد کو عسکریت پسندوں سے آزاد کرانے کے لیے یہ مہم شروع کی گئی تھی اور ’آپریشن خاتمہ‘ 'Operation Endاسی مہم کا بیان ہے۔

دو صحافی آر سی گنجو اور اشوینی بھٹناگر کی تصنیف کردہ کتاب 'آپریشن خاتمہ' مارچ 1996 میں سرینگر کی تاریخی حضرت بل مسجد کا محاصرہ کرنے والے عسکریت پسندوں سے آزاد کرانے کے لیے شروع کی گئی مہم کی زندہ کہانی ہے۔ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) کی اس کارروائی میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے 22 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

اس سے قبل 1993 میں جے کے ایل ایف کے ایک گروپ نے درگاہ حضرت بل پر قبضہ کر لیا تھا اور 32 دن کی بات چیت اور بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں کے بعد عسکریت پسندوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

مارچ 1996 میں جب جے کے ایل ایف کے کمانڈر شبیر صدیقی اور ان کے 20 سے زیادہ ساتھی عسکریت پسندوں نے درگاہ حضرت بل پر قبضہ کرلیا تھا تب 'آپریشن خاتمہ' شروع کیا گیا تھا۔ ایس او جی چیف اور ایس ایس پی فاروق خان درگاہ حضرت بل کو آزاد کرانے کے لیے پرعزم تھے۔

کتاب میں ایس ایس پی فاروق خان کے خطرات مول لینے، اعلیٰ حکام کو راضی کرنے اور تاریخی مہم شروع کرنے کے سلسلے کی تفصیلات ہیں۔

مزید پڑھیں:۔ وزیراعظم سرجیکل اسٹرائک کا ثبوت دیں۔ کمل ناتھ

مصنفوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ'پہلے عسکریت پسندوں کو مرکزی درگاہ چھوڑنے اور ملحقہ عمارت میں جانے کے لیے آمادہ کیا گیا تھا۔ جب بات چیت جاری تھی، اسی دوران صدیقی کو پی او کے سے جے کے ایل ایف کے سربراہ امان اللہ خان کے ذریعہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ واپس مسجد میں چلے جائیں۔ پیغام کوانٹرسیپٹ کیا گیا اور امان اللہ خان کی قیادت میں ایس او جی نے عسکریت پسندوں کا محاصرہ کیا۔

عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے چیلنج دیا گیا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد ایس او جی نے عسکریت پسندوں کی اس حرکت کا منہ توڑ جواب دیا۔ ایس او جی کی اس 'آپریشن خاتمہ' مہم میں 22 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

کشمیر کا احاطہ کرنے والے گنجو اور بھٹناگر نے کتاب میں 'آپریشن خاتمہ' کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ مصنفین نے کہا کہ 'آپریشن خاتمہ' کی اس بنیادی حقیقت کو واضح کیا ہے کہ جمہوری ڈھانچے کے اندر'عسکریت پسندوں' کے ساتھ بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بالآخر بپھرے ہوئے بیل کو سینگوں سے پکڑنا اور انہیں زمین پر ٹکانا یا پٹخنا ہوگا اور اس تناظر میں سیاست دانوں کو اس سے دور ہونا چاہیے۔

گنجو نے یو این آئی کو بتایا کہ عسکریت پسندوں کا واحد حل انسداد دہشت گردی آپریشن ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے ذریعے شکایات کے گفت و شنید کے حل کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ مذہبی جنونیت میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میری بات مانو ورنہ گولی مار دوںگا، وہ یہی کہتے ہیں۔

مصنفین نے بتایا کہ یہ کتاب ایک بین الاقوامی فلم پروڈکشن ہاؤس نے بھی ویب سیریز بنانے کے لیے حاصل کی ہے۔

یو این آئی

Last Updated : Jan 16, 2022, 6:49 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.