ETV Bharat / bharat

Workshop For Madrasa Teachers مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد - سینٹر فار پروموشن آف سائنس

سینٹر فار پروموشن آف سائنس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد کیا گیا۔ ورکشاپ میں ملک بھر کے مدارس اور یونیورسٹی کے اساتذہ و طلباء نے شرکت کرکے اسے کامیاب بنایا۔

مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد
مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد
author img

By

Published : Mar 24, 2023, 3:44 PM IST

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) میں سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے زیر اہتمام مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد کیا گیا۔ مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ سے متعلق اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے پیغام میں کہا کہ سینٹر کی تجدید کی گئی ہے تاکہ یونیورسٹی اور مدارس کے قدیم رشتہ کو مضبوطی حاصل ہو اور مدارس میں سائنسی علوم کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کی وزارت اقلیتی امور نے اس سینٹر کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک خطیر رقم کی منظوری دی ہے، جس سے مدرسہ اور سینٹر کے تعامل اور مدرسہ موڈرنائزیشن کا کام بآسانی کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے ہم وزارت کے مشکور و ممنون ہیں۔ سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے ڈائریکٹر نسیم احمد خاں نے سینٹر کا تعارف کراتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں اور مقاصد پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانان ہند میں سائنسی علوم کے فروغ اور پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے ہی اے ایم یو نے اپنے ایکٹ کی دفعات کے تحت 1985 میں 'سینٹر فار پروموشن آف سائنس' قائم کیا۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا سینٹر ہے لیکن درحقیقت یہ یونیورسٹی کی ایک بڑی خدمت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی علوم کے حصول اور اس کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور سائنس میں ان کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہر ممکنہ امداد فراہم کرنا، مدارس میں سائنس کی باقاعدہ تدریس شروع کرنے اور اقلیتی اسکولوں میں سائنس کی تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنانے میں مدد کرنا مرکز کی اہم خدمات ہیں اور اس سینٹر کو بلندیوں پر پہنچا نے میں اس کے سب سے پہلے بانی ڈائریکٹر پروفیسر اسرار احمد خان کا اہم رول رہا ہے۔

ورکشاپ میں ہر روز تین نشستوں کا اہتمام کیا گیا، جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بیرون ممالک کے دانشوروں اور ماہرین نے بیش قیمتی لیکچرز اور خطبات پیش کئے۔ پروفیسر محمد رضوان نے قرآن اور سائنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ اور وحی ہمارے پاس نالج کے دو ایسے سورسز ہیں جن پر ہم سب کا کامل یقین ہے اور قرآنی سائنس اور آج کے سائنس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن بیکڈ سائنسٹفک ایٹیٹوڈ پہلے ایک پریمائس یعنی مفروضہ طے کرتا ہے لیکن آج کے سائنس میں یہ بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہم کس حد تک توہم پرستی سے خود کو اور عوام کو نکال کر حقیقی دنیا سے روشناس کراتے ہیں۔

نظام شمسی پر بات کرتے ہوئے پروفیسر عبد القیوم نے کہا کہ اس تعلق سے بات کرنے والا ایک یونانی فلسفی ارسطو تھا اور ٹالمی نے اس کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے سیاروں اور ان کے مدارج پر تفصیل سے کلام کیا کہ مریخ کیسے کام کرتا ہے پہلے آگے کو بڑھتا ہے پھر پیچھے کو ہٹتاہے۔ انہوں نے سیاروں کی انواع و اقسام پر تفصیل سے گفتگو کی۔ پروفیسر مسرور عالم نے نظام زندگی اور زمین کے آپریٹنگ سسٹم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زندگی کے لیے جنت بنایا ہے۔ اللہ نے زمین کے ٹیمپریچر کو ایسا بنایا کہ ہم زندگی آسانی سے گزار سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو توازن سے پیدا کیا ہے جس سے زندگی گزارنا ہمارے لیے آسان ہوتا ہے۔

پروفیسر حسام الدین نے پودوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پودوں کے کیا فوائد ہیں ان کو جاننا ضروری ہے۔ پروفیسر جابر حسن خان نے موسم اور آب و ہوا پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج موسم کیسے تبدیل ہو رہا ہے جو ہماری صحت کے لیے مضر ہے اور جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، لہٰذا ہمیں اس تعلق سے محتاط رہنا چاہئے۔ انھوں نے اسلامی تناظر میں حیاتیاتی تنوع، ماحول اور آب و ہوا کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ مؤثر تدریس کے عناصر کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ایم عابد صدیقی نے کہا کہ اساتذہ کو تدریسی عمل پر اثر اور طلبہ کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لیے ممکنہ تکنیکی وسائل کا سہارا لینا چاہیے۔ صحت اور حفظان صحت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شارق عقیل نے کہا کہ صحت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے لئے ہمیں مفید اور صحت بخش غذائیں اختیار کرنی ہو گی۔ پروفیسر ایم اثمر بیگ نے ہندوستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی ہندوستانی سیاست میں بہت تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہے جس کا واحد سبب دھرم کے نام پر سیاست ہے۔

پروفیسر محمد ریحان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم توانائی کا استعمال اُس کی پیداوار سے زیادہ تیزی سے کرتے ہیں، زمین آب و ہوا، پانی، روشنی وغیرہ یہ سب ہمارے لئے ایک تحفہ سے کم نہیں ہیں اس لئے ہمیں توانائی کے تحفظ کو ایک عادت بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے توانائی کی بچت کے طریق ہائے کار پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر فیصل انور نے ویب وسائل کو اختیار کر کے ہم کیسے ترقی کے منازل طے کر سکتے ہیں ان تمام امور پر تفصیل سے کلام کیا۔ پروفیسر عفیف اللہ نے ماحولیاتی نظام کو کیسے بہتر اور محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نئی نئی بیماریوں سے کیسے تحفظ حاصل کیاجا سکتا ہے ان تمام امور پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر طارق عثمانی نے کہاکہ آج انسان قدرتی وسائل کا استعمال اپنی ضرورت سے زیادہ کر رہا ہے جو ہمیں پریشان کن حالات کی طرف لے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر بچن علی خاں نے انسانی جسم کے افعال و اعمال پر تفصیل سے کلام کیا۔

تصور تخلیق اور نظریہ ارتقاء پر بات کرتے ہوئے پروفیسر رضوان احمد نے کہا کہ نظریہ ارتقاء سائنسداں کے نزدیک بڑی قابل قبول تھیو ری ہے اور نظریہ ارتقاء ایسا موضوع ہے جس پر بحث ہوتی رہنی چاہیے اور نظریہ ارتقاء کا مطلب وہ نہیں ہے جو ہم سمجھتے آرہے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے اور اس نظریہ کو ماننے کا مطلب خدا کا انکار بھی نہیں ہے اور یہ کہ اس نظریہ کا موجد ڈارون ملحد تھا یہ بھی غلط ہے اور اس نظریہ کے متعلق ہر مذہب کی مختلف آراء رہی ہیں۔ قرآن اور ماحولیات پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فائزہ عباسی نے کہا کہ آج ہم نے مشین اور ٹکنالوجی میں تو ترقی کی ہے لیکن ہم نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے لئے مصیبت کے سامان بھی پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن نے ہمیں ماحولیاتی تحفظ، ہوا، پانی نباتات، حیوانات درخت وغیرہ کی اہمیت اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت کے تعلق سے تفصیل سے بتایا ہے۔

پروفیسر ایم عاصم صدیقی نے موجودہ دور میں آئی ٹی کے استعمال، اور تدریسی عمل میں اس کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔ قرآن میں بیان کردہ آثار قدیمہ اور ان کو بیان کرنے کے مقاصد اور ان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ان تمام چیزوں پر انجینئر ایس امین الحسن نے مفصل خطاب کیا۔ ڈاکٹر علی جعفر عابدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ صحیح اور صحت بخش غذا کا انتخاب ہماری زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو ہماری صحت کے لیے بیحد مفید ہے۔ پروفیسر پرویز احمد نے ٹیچنگ اسکلس پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ایک ٹیچر میں ہنر کا ہونا طلباء کے لئے تدریس کے تعلق سے ایک لازمی حصہ ہے جس سے سیکھنے اور سکھانے کا عمل آسان ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Online Workshop For Madarsa Teachers :مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ

نائب ڈائریکٹر پروفیسر مسرور عالم نے سینٹر کی جانب سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ورکشاپ کے کنوینر ڈاکٹر ریحان اختر (اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف تھیولوجی) نے بتایا کہ رمضان بعد مدارس کے اساتذہ کے لیے ایک آف لائن کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ ورکشاپ میں ملک بھر کے مدارس اور یونیورسٹی کے اساتذہ و طلباء نے شرکت کرکے اسے کامیاب بنایا۔

قابل ذکر ہے کہ 26 مارچ 1985 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ 1981 کے سیکشن 5(2) (C) کے تحت سید حامد کی وائس چانسلر شپ کے دور میں بھارتی مسلمانوں میں سائنسی علوم کو فروغ دینے کے لئے اے ایم یو میں 'سینٹر فار پروموشن آف سائنس' کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت یونیورسٹی کو بالخصوص مسلمانان ہند میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینے کا اختیار حاصل ہے۔

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) میں سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے زیر اہتمام مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد کیا گیا۔ مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ سے متعلق اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے پیغام میں کہا کہ سینٹر کی تجدید کی گئی ہے تاکہ یونیورسٹی اور مدارس کے قدیم رشتہ کو مضبوطی حاصل ہو اور مدارس میں سائنسی علوم کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کی وزارت اقلیتی امور نے اس سینٹر کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک خطیر رقم کی منظوری دی ہے، جس سے مدرسہ اور سینٹر کے تعامل اور مدرسہ موڈرنائزیشن کا کام بآسانی کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے ہم وزارت کے مشکور و ممنون ہیں۔ سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے ڈائریکٹر نسیم احمد خاں نے سینٹر کا تعارف کراتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں اور مقاصد پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانان ہند میں سائنسی علوم کے فروغ اور پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے ہی اے ایم یو نے اپنے ایکٹ کی دفعات کے تحت 1985 میں 'سینٹر فار پروموشن آف سائنس' قائم کیا۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا سینٹر ہے لیکن درحقیقت یہ یونیورسٹی کی ایک بڑی خدمت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی علوم کے حصول اور اس کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور سائنس میں ان کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہر ممکنہ امداد فراہم کرنا، مدارس میں سائنس کی باقاعدہ تدریس شروع کرنے اور اقلیتی اسکولوں میں سائنس کی تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنانے میں مدد کرنا مرکز کی اہم خدمات ہیں اور اس سینٹر کو بلندیوں پر پہنچا نے میں اس کے سب سے پہلے بانی ڈائریکٹر پروفیسر اسرار احمد خان کا اہم رول رہا ہے۔

ورکشاپ میں ہر روز تین نشستوں کا اہتمام کیا گیا، جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بیرون ممالک کے دانشوروں اور ماہرین نے بیش قیمتی لیکچرز اور خطبات پیش کئے۔ پروفیسر محمد رضوان نے قرآن اور سائنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ اور وحی ہمارے پاس نالج کے دو ایسے سورسز ہیں جن پر ہم سب کا کامل یقین ہے اور قرآنی سائنس اور آج کے سائنس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن بیکڈ سائنسٹفک ایٹیٹوڈ پہلے ایک پریمائس یعنی مفروضہ طے کرتا ہے لیکن آج کے سائنس میں یہ بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہم کس حد تک توہم پرستی سے خود کو اور عوام کو نکال کر حقیقی دنیا سے روشناس کراتے ہیں۔

نظام شمسی پر بات کرتے ہوئے پروفیسر عبد القیوم نے کہا کہ اس تعلق سے بات کرنے والا ایک یونانی فلسفی ارسطو تھا اور ٹالمی نے اس کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے سیاروں اور ان کے مدارج پر تفصیل سے کلام کیا کہ مریخ کیسے کام کرتا ہے پہلے آگے کو بڑھتا ہے پھر پیچھے کو ہٹتاہے۔ انہوں نے سیاروں کی انواع و اقسام پر تفصیل سے گفتگو کی۔ پروفیسر مسرور عالم نے نظام زندگی اور زمین کے آپریٹنگ سسٹم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زندگی کے لیے جنت بنایا ہے۔ اللہ نے زمین کے ٹیمپریچر کو ایسا بنایا کہ ہم زندگی آسانی سے گزار سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو توازن سے پیدا کیا ہے جس سے زندگی گزارنا ہمارے لیے آسان ہوتا ہے۔

پروفیسر حسام الدین نے پودوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پودوں کے کیا فوائد ہیں ان کو جاننا ضروری ہے۔ پروفیسر جابر حسن خان نے موسم اور آب و ہوا پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج موسم کیسے تبدیل ہو رہا ہے جو ہماری صحت کے لیے مضر ہے اور جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، لہٰذا ہمیں اس تعلق سے محتاط رہنا چاہئے۔ انھوں نے اسلامی تناظر میں حیاتیاتی تنوع، ماحول اور آب و ہوا کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ مؤثر تدریس کے عناصر کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ایم عابد صدیقی نے کہا کہ اساتذہ کو تدریسی عمل پر اثر اور طلبہ کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لیے ممکنہ تکنیکی وسائل کا سہارا لینا چاہیے۔ صحت اور حفظان صحت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شارق عقیل نے کہا کہ صحت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے لئے ہمیں مفید اور صحت بخش غذائیں اختیار کرنی ہو گی۔ پروفیسر ایم اثمر بیگ نے ہندوستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی ہندوستانی سیاست میں بہت تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہے جس کا واحد سبب دھرم کے نام پر سیاست ہے۔

پروفیسر محمد ریحان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم توانائی کا استعمال اُس کی پیداوار سے زیادہ تیزی سے کرتے ہیں، زمین آب و ہوا، پانی، روشنی وغیرہ یہ سب ہمارے لئے ایک تحفہ سے کم نہیں ہیں اس لئے ہمیں توانائی کے تحفظ کو ایک عادت بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے توانائی کی بچت کے طریق ہائے کار پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر فیصل انور نے ویب وسائل کو اختیار کر کے ہم کیسے ترقی کے منازل طے کر سکتے ہیں ان تمام امور پر تفصیل سے کلام کیا۔ پروفیسر عفیف اللہ نے ماحولیاتی نظام کو کیسے بہتر اور محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نئی نئی بیماریوں سے کیسے تحفظ حاصل کیاجا سکتا ہے ان تمام امور پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر طارق عثمانی نے کہاکہ آج انسان قدرتی وسائل کا استعمال اپنی ضرورت سے زیادہ کر رہا ہے جو ہمیں پریشان کن حالات کی طرف لے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر بچن علی خاں نے انسانی جسم کے افعال و اعمال پر تفصیل سے کلام کیا۔

تصور تخلیق اور نظریہ ارتقاء پر بات کرتے ہوئے پروفیسر رضوان احمد نے کہا کہ نظریہ ارتقاء سائنسداں کے نزدیک بڑی قابل قبول تھیو ری ہے اور نظریہ ارتقاء ایسا موضوع ہے جس پر بحث ہوتی رہنی چاہیے اور نظریہ ارتقاء کا مطلب وہ نہیں ہے جو ہم سمجھتے آرہے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے اور اس نظریہ کو ماننے کا مطلب خدا کا انکار بھی نہیں ہے اور یہ کہ اس نظریہ کا موجد ڈارون ملحد تھا یہ بھی غلط ہے اور اس نظریہ کے متعلق ہر مذہب کی مختلف آراء رہی ہیں۔ قرآن اور ماحولیات پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فائزہ عباسی نے کہا کہ آج ہم نے مشین اور ٹکنالوجی میں تو ترقی کی ہے لیکن ہم نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے لئے مصیبت کے سامان بھی پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن نے ہمیں ماحولیاتی تحفظ، ہوا، پانی نباتات، حیوانات درخت وغیرہ کی اہمیت اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت کے تعلق سے تفصیل سے بتایا ہے۔

پروفیسر ایم عاصم صدیقی نے موجودہ دور میں آئی ٹی کے استعمال، اور تدریسی عمل میں اس کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔ قرآن میں بیان کردہ آثار قدیمہ اور ان کو بیان کرنے کے مقاصد اور ان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ان تمام چیزوں پر انجینئر ایس امین الحسن نے مفصل خطاب کیا۔ ڈاکٹر علی جعفر عابدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ صحیح اور صحت بخش غذا کا انتخاب ہماری زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو ہماری صحت کے لیے بیحد مفید ہے۔ پروفیسر پرویز احمد نے ٹیچنگ اسکلس پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ایک ٹیچر میں ہنر کا ہونا طلباء کے لئے تدریس کے تعلق سے ایک لازمی حصہ ہے جس سے سیکھنے اور سکھانے کا عمل آسان ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Online Workshop For Madarsa Teachers :مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ

نائب ڈائریکٹر پروفیسر مسرور عالم نے سینٹر کی جانب سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ورکشاپ کے کنوینر ڈاکٹر ریحان اختر (اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف تھیولوجی) نے بتایا کہ رمضان بعد مدارس کے اساتذہ کے لیے ایک آف لائن کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ ورکشاپ میں ملک بھر کے مدارس اور یونیورسٹی کے اساتذہ و طلباء نے شرکت کرکے اسے کامیاب بنایا۔

قابل ذکر ہے کہ 26 مارچ 1985 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ 1981 کے سیکشن 5(2) (C) کے تحت سید حامد کی وائس چانسلر شپ کے دور میں بھارتی مسلمانوں میں سائنسی علوم کو فروغ دینے کے لئے اے ایم یو میں 'سینٹر فار پروموشن آف سائنس' کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت یونیورسٹی کو بالخصوص مسلمانان ہند میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینے کا اختیار حاصل ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.