ETV Bharat / bharat

کووِڈ پالیسی سے متعلق ’عظیم‘ اقدام - ملک گیر لاک ڈاون لگایا گیا تھا

مرکز نے مارچ میں 21 ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے اقدام کے نتیجے میں اب یہ محض ایک نمائشی ٹاسک فورس بن کر رہ گیا۔

Supreme court
سپریم کورٹ
author img

By

Published : May 24, 2021, 5:14 PM IST

Updated : May 24, 2021, 5:28 PM IST

آئین ہند کی دفعہ 355 کے مطابق ہر ریاست کو خارجی جارحیت اور داخلی خلفشار سے محفوظ رکھنا اور ہر ریاست کی سرکار کا آئینِ ہند کے مطابق چلنا یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت پر جب ریاستیں کووِڈ کی دوسری لہر کے نتیجے میں متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اموات کی وجہ سے مشکلات سے جوجھ رہی ہیں، مرکزی سرکار کیا کر رہی ہے؟ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے 741 اضلاع میں 301 مقامات پر کووِڈ متاثرین کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔

وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ بلیٹن کے مطابق وبا آسام، مغربی بنگال، اُڑیسہ، بہار اور جہارکھنڈ کی ریاستوں میں پھیل رہی ہے۔ سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرناٹکا میں 30 کووِڈ متاثرین کو اسپتال کے بستروں کے میسر ہوجانے کا انتطار ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کے اس موقف کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ وہ ریاستوں کو اسی طریقہ کار کے مطابق آکسیجن فراہم کررہا ہے، جس کا تعین نیتی آیوگ کے رُکن وی کے پال کی سربراہی والی کمیٹی نے کیا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے از خود 12 ممبران پر مشتمل نیشنل ٹاسک فور قائم کیا ہے۔ اگرچہ مرکز نے مارچ میں 21 ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے اقدام کے نتیجے میں اب یہ محض ایک نمائشی ٹاسک فورس بن کر رہ گیا۔ یہ ٹاسک فورس کس قدر بے اثر ثابت ہوا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ملک میں کووِڈ متاثرین کی تعداد روزانہ 500 ہوا کرتی تھی، تب ملک گیر لاک ڈاون لگایا گیا تھا، لیکن آج جب روازنہ متاثرین کے چار لاکھ کیس سامنے آرہے ہیں، حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ایک سپر ماڈل کمیٹی گزشہ مئی کو قائم کی گئی تھی تاکہ وائرس کی شدت کا اندازہ ریاضی طریقہ کار سے لگایا جا سکے۔ لیکن اس کمیٹی کی جانب سے وبا کی دسری لہر کی آمد کے حوالے سے کی گئی پیش گوئی پر مرکز نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب جبکہ انسانوں کی غلطی کے نتیجے میں ملک ایک المیہ سے دوچار ہوگیا ہے، صرف سپریم کورٹ ہی صیح رہنمائی کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے خود جنوری میں اعلان کیا تھا کہ بھارت نے کورونا کے خلاف جنگ کو عوامی تحریک میں بدل دیا اور اس کی وجہ سے اب بھارت اُن ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جو اپنے عوام کی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دسمبر میں 10 انجمنوں پر مشتمل ایک ’جینیاتی گروپ‘ تشکیل دیا گیا تھا تاکہ کورونا وائرس میں ہونے والے بدلاو پر نظر رکھی جا سکے۔ اس کمیٹی نے نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (این سی ڈی سی) کے پاس اپنی درج کرائی گئی رپورٹ میں کہا کہ وائرس جلد ہی پھر نمودار ہوگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرکزی وزیر صحت نے جب مارچ کے پہلے ہفتے میں یہ اعلان کیا کہ کووِڈ ملک سے ختم ہو گیا ہے، یہ رپورٹ اس کے محض دو دن بعد پیش کی گئی۔ سینٹر فار سیلولر اینڈ مالی کیولر بائیولوجی کے سابق ڈائریکٹر راکیش مشرا نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ بات ناممکن ہےکہ وزیر اعظم کو اس رپورٹ کے بارے میں مطلع نہ کیا گیا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال احتیاطی اقدامات کرنے میں ناکامی کی وجہ سے رونما ہو گئی ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ وائرس زیادہ خطرناک شکل اختیار کرے گا اور لوگوں کو شدت کے ساتھ متاثر کرئے گا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وبا کی تیسری لہر بھی پھیلنے والی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کسانوں کی ٹریکٹر ریلی: کسان تنظیموں اور وزیر زراعت کے بیانات

اس رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے قائم کردہ ٹاسک فورس پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر ایک سائنٹفک پالیسی مرتب کرے تاکہ آکسیجن سپلائی یقینی بنائی جا سکے۔ عدالت نے ٹاسک فورس کو ایمرجنسی میں کام آنے والی ادویات کی موجودگی یقینی بنانے پر بھی توجہ مرکوز کرے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ اگر اس ٹاسک فورس میں منتقل ہوجانے والی بیماریوں اور وبا کے ماہرین کو بھی شامل کیا گیا ہوتا۔

وبا کے خلاف جنگ ویسے ہی لڑنے ہوگئی جیسے سائنسدانوں کی ہدایات کے مطابق اور مختلف محکموں کے تال میل سے مہا یگنا منعقد کیا گیا تھا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اسے رہنمائی کے لئے عدالتی احکامات کا انتظار کرنا پڑا ہے۔

آئین ہند کی دفعہ 355 کے مطابق ہر ریاست کو خارجی جارحیت اور داخلی خلفشار سے محفوظ رکھنا اور ہر ریاست کی سرکار کا آئینِ ہند کے مطابق چلنا یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت پر جب ریاستیں کووِڈ کی دوسری لہر کے نتیجے میں متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اموات کی وجہ سے مشکلات سے جوجھ رہی ہیں، مرکزی سرکار کیا کر رہی ہے؟ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے 741 اضلاع میں 301 مقامات پر کووِڈ متاثرین کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔

وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ بلیٹن کے مطابق وبا آسام، مغربی بنگال، اُڑیسہ، بہار اور جہارکھنڈ کی ریاستوں میں پھیل رہی ہے۔ سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرناٹکا میں 30 کووِڈ متاثرین کو اسپتال کے بستروں کے میسر ہوجانے کا انتطار ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز کے اس موقف کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ وہ ریاستوں کو اسی طریقہ کار کے مطابق آکسیجن فراہم کررہا ہے، جس کا تعین نیتی آیوگ کے رُکن وی کے پال کی سربراہی والی کمیٹی نے کیا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے از خود 12 ممبران پر مشتمل نیشنل ٹاسک فور قائم کیا ہے۔ اگرچہ مرکز نے مارچ میں 21 ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کے اقدام کے نتیجے میں اب یہ محض ایک نمائشی ٹاسک فورس بن کر رہ گیا۔ یہ ٹاسک فورس کس قدر بے اثر ثابت ہوا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ملک میں کووِڈ متاثرین کی تعداد روزانہ 500 ہوا کرتی تھی، تب ملک گیر لاک ڈاون لگایا گیا تھا، لیکن آج جب روازنہ متاثرین کے چار لاکھ کیس سامنے آرہے ہیں، حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ایک سپر ماڈل کمیٹی گزشہ مئی کو قائم کی گئی تھی تاکہ وائرس کی شدت کا اندازہ ریاضی طریقہ کار سے لگایا جا سکے۔ لیکن اس کمیٹی کی جانب سے وبا کی دسری لہر کی آمد کے حوالے سے کی گئی پیش گوئی پر مرکز نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب جبکہ انسانوں کی غلطی کے نتیجے میں ملک ایک المیہ سے دوچار ہوگیا ہے، صرف سپریم کورٹ ہی صیح رہنمائی کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے خود جنوری میں اعلان کیا تھا کہ بھارت نے کورونا کے خلاف جنگ کو عوامی تحریک میں بدل دیا اور اس کی وجہ سے اب بھارت اُن ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جو اپنے عوام کی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دسمبر میں 10 انجمنوں پر مشتمل ایک ’جینیاتی گروپ‘ تشکیل دیا گیا تھا تاکہ کورونا وائرس میں ہونے والے بدلاو پر نظر رکھی جا سکے۔ اس کمیٹی نے نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (این سی ڈی سی) کے پاس اپنی درج کرائی گئی رپورٹ میں کہا کہ وائرس جلد ہی پھر نمودار ہوگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرکزی وزیر صحت نے جب مارچ کے پہلے ہفتے میں یہ اعلان کیا کہ کووِڈ ملک سے ختم ہو گیا ہے، یہ رپورٹ اس کے محض دو دن بعد پیش کی گئی۔ سینٹر فار سیلولر اینڈ مالی کیولر بائیولوجی کے سابق ڈائریکٹر راکیش مشرا نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ بات ناممکن ہےکہ وزیر اعظم کو اس رپورٹ کے بارے میں مطلع نہ کیا گیا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال احتیاطی اقدامات کرنے میں ناکامی کی وجہ سے رونما ہو گئی ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ وائرس زیادہ خطرناک شکل اختیار کرے گا اور لوگوں کو شدت کے ساتھ متاثر کرئے گا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وبا کی تیسری لہر بھی پھیلنے والی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کسانوں کی ٹریکٹر ریلی: کسان تنظیموں اور وزیر زراعت کے بیانات

اس رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے قائم کردہ ٹاسک فورس پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر ایک سائنٹفک پالیسی مرتب کرے تاکہ آکسیجن سپلائی یقینی بنائی جا سکے۔ عدالت نے ٹاسک فورس کو ایمرجنسی میں کام آنے والی ادویات کی موجودگی یقینی بنانے پر بھی توجہ مرکوز کرے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ اگر اس ٹاسک فورس میں منتقل ہوجانے والی بیماریوں اور وبا کے ماہرین کو بھی شامل کیا گیا ہوتا۔

وبا کے خلاف جنگ ویسے ہی لڑنے ہوگئی جیسے سائنسدانوں کی ہدایات کے مطابق اور مختلف محکموں کے تال میل سے مہا یگنا منعقد کیا گیا تھا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور اسے رہنمائی کے لئے عدالتی احکامات کا انتظار کرنا پڑا ہے۔

Last Updated : May 24, 2021, 5:28 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.